'افغانستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو رہی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں جہاں جہاں طالبان مسلط ہو رہے ہیں۔ وہاں انہوں نے روزمرہ زندگی کے حوالے سے کچھ پابندیاں بھی عائد کرنا شروع کر دی ہیں۔
یہ کہنا ہے خدیجہ امین کا، جو نہیں چاہتیں کہ طالبان کا افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا یہ سلسلہ پورے ملک میں پھیلے۔
کابل میں مقیم ’نیشنل ریڈیو ٹیلی وژن افغانستان‘ (آر ٹی اے) سے منسلک خاتون صحافی خدیجہ امین کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں افغان عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار پر قبضے کے خوف کے باعث انہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ خواتین کو تعلیمی اداروں میں جانے کے ساتھ ساتھ دفاتر میں کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
طالبان کی 1996 سے 2001 کے درمیان حکومت میں خواتین کا بغیر محرم کے گھر سے باہر نکلنے، روزگار اور تعلیم پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
خدیجہ امین کا کہنا ہے کہ وہ اس دور میں اپنے والدین کے ساتھ جان بچانے کی غرض سے پاکستان منتقل ہو گئی تھیں تاہم جب بھی وہ اپنی والدہ سے اس دور کی کہانیاں سنتی ہیں تو لرز جاتی ہیں۔
امریکی اور اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہونے کے بعد خواتین کے حقوق کے مستقبل کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔
طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے بیشتر حصوں کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان نے تاجکستان، ترکمانستان اور چین سے متصل علاقے بھی اپنے قبضے میں لیے ہیں۔ جمعرات کو صوبہ ہرات میں ایران سے ملحقہ اسلام قلعہ کراسنگ پوائنٹ بھی طالبان نے کنٹرول میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔
دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ ماضی سے سبق حاصل کر چکے ہیں اور وہ خواتین کے روزگار اور تعلیم کے حصول پر قد غن نہیں لگائیں گے۔ تاہم وہ یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسلامی دائرہ کار میں ہو گا۔
طالبان کے دعوؤں پر شک
شنکئی کروخیل 2005 سے افغان پارلیمنٹ کی رکن ہیں۔ وہ طالبان کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان کے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ جس جگہ بھی قبضہ کرتے ہیں اسے تباہ کر دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض ایسے مقامات ہیں جہاں پر طالبان نے خواتین کو روزگار چھوڑنے کے لیے تنبیہ کی ہے۔
افغان پارلیمان کی رکن کا مزید کہنا تھا کہ ایسے افراد جو افغانستان کی تعمیر کے بجائے اسے اجاڑنے میں ملوث ہوں۔ ان کی باتوں پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟
شنکئی کروخیل کے مطابق طالبان کی خواتین کی آزادی اور حقوق کے بارے میں حکمت عملی مبہم ہے۔
ان کے بقول اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے نہ کہ اختیاری۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلیم مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے۔ خواتین کو بھی مردوں کی طرح ایک انسان سمجھا جائے۔ انہیں بھی تعلیم، روزگار اور آزادی کے مواقع دینے چاہئیں۔
کابل میں مقیم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم پلوشہ حسن، شنکئی کروخیل سے اتفاق کرتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ طالبان کے رویے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی آئی ہے۔ کیوں کہ بعض مقامات سے ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جس کے تحت خواتین کے منصوبے بند کیے جا رہے ہیں۔
پلوشہ حسن کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ زدہ ملک ہے۔ 40 سال سے زائد یہاں شورش ہے۔ اس ملک میں 20 لاکھ سے زائد بیوہ خواتین ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے لیے روزگار سے وابستہ ہیں۔ افغانستان ایک غریب ملک ہے۔ اگر وہ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گی تو اپنے بچوں کی کفالت کیسے کریں گی؟۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی مرد 24 گھنٹے خواتین کے ہمراہ رہے۔ انہیں اپنے بھی سو کام ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسی تمام گزارشات حقیقت کے منافی ہیں۔
’تعلیم کا شعبہ سب سے پہلے شدت پسندی کے زد میں آتا ہے‘
نغمہ (فرضی نام) کا تعلق افغانستان کے صوبہ بلخ سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بد قسمتی سے تعلیم کا شعبہ سب سے پہلے شدت پسندی کے زد میں آتا ہے۔ کیونکہ علم کے ذریعے روشنی پھیلتی ہے جب کہ شدت پسند لوگوں کو تاریکی میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں انتشار کی کیفیت کے باعث وہ بہت پریشان ہیں۔ انہیں بچیوں کے اسکول بند ہونے کی تشویش لاحق ہے۔
خدیجہ امین کا کہنا ہے کہ طالبان دوحہ امن معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ کیوں کہ ان کی جانب سے حملوں میں تیزی آئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر طالبان واقعی ماضی سے سبق سیکھ چکے ہیں تو پھر وہ تمام کارروائیوں کے لیے بندوق کا راستہ ہی کیوں چنتے ہیں؟
Your browser doesn’t support HTML5
اس لیے وہ سمجھتی ہیں کہ طالبان کے طرز و فکر میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
واضح رہے کہ طالبان افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا ذمہ دار افغان حکومت کو قرار دیتے ہیں۔
دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی ترجیحات قیامِ امن کے بجائے اپنے دورِ حکومت کو دوام بخشنا ہے۔
دوسری جانب طالبان ایسی تمام رپورٹس جیسے کے خواتین کا گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی، مردوں کو داڑھی منڈوانے سے منع کرنا اور خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دینے کو رد کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے کہیں بھی کسی بھی قسم کے پوسٹرز نہیں لگائے گئے۔
وہ ایسی کارروائیوں کو اپنے مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔