پاکستان کے مختلف شہروں اور کیمپوں میں مقیم افغان مہاجرین نے وزیر اعظم عمران خان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین سے اپیل کی ہے کہ پاکستان بھر میں مقیم افغان مہاجرین کو مہاجر کارڈ جلد جاری کیے جائیں۔
افغان مہاجرین کا کہنا ہے کہ مہاجرین بچوں کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو تنخواہیں دی جائیں اور نصاب کی کتب فراہم کی جائیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کو لکھے گئے دو خطوط میں مہاجرین کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی درخواست پر وفاقی حکومت نے 8 لاکھ مہاجرین کو نئے کارڈز جار ی کرنے کا فیصلہ کیا تھا جن میں سے صرف تین لاکھ نئے جاری کئے گئے ہیں جبکہ پانچ لاکھ کارڈز ابھی جاری نہیں کئے گئے۔
اس کے علاوہ 14 لاکھ مہاجرین کو پہلے جو کارڈز جاری کئے گئے تھے اُن کی مدت دسمبر 2015 میں ختم ہو چکی ہے جس کے سبب مہاجرین کو اندرون ملک آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
افغان مہاجر ین اتحاد بلوچستان کے صدر محمد تادین ترہ کئی نے وائس آف امر یکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ پولیس یا ایف سی ہمیں روکتے اور کارڈ چیک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کارڈ کی مدت ختم ہو چکی ہے لہذا آپ کہیں نہیں جا سکتے۔ ہم نے وزیر اعظم سے ایک خط کے ذریعے درخواست کی ہے کہ ہمارے مہاجرین کے کارڈز کی معیاد ختم ہو گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس پرانے کارڈ پر مہاجروں کو نہ تو سم دی جاتی ہے، اور نہ ہی رہائش کے لئے کسی ہوٹل میں کمرہ ملتا ہے جبکہ بینک اکاﺅنٹ کھولنے اور ڈرائیونگ لائسنس میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسر ے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے مختلف کیمپوں میں افغان مہاجرین کے لئے 400 اسکول کالجز ہیں۔ ان میں پشتو، فارسی، عر بی اور انگریز ی پڑھائی جاتی ہے۔ اب 110 اسکولوں میں زیر تعلیم افغان مہاجرین کے بچوں کو یہ کتابیں اور نہ ہی اسٹیشنری کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔
خط میں لکھا ہے کہ اسی طرح ان اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کو تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی۔ خط میں وفاقی حکومت اور ادار ہ برائے مہاجرین یو ایچ سی ار سے اپیل کی گئی ہے کہ ہمارے طلبا کو درسی کُتب فراہم کی جائیں یا پھر افغانستان سے یہ کتابیں لانے اور اساتذ ہ کو تنخواہ دلانے کی اجازت دی جائے ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجر ین کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں کُل پندرہ لاکھ رجسٹرڈ اور اتنی ہی تعداد میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین مقیم تھے۔ ان میں سے چار لاکھ سے زائد خیبر پختونخوا اور ایک لاکھ کے لگ بھگ بلوچستان اور لاکھ سے زائد ملک کے دیگر صوبوں سے واپس اپنے وطن چلے گئے ہیں۔