مرنے والوں میں پارلیمنٹ کے رکن اور اہم سیاسی شخصیت احمد خان سمنگان بھی شامل ہیں۔
افغانستان کے شمالی صوبے میں ہفتہ کی صبح ایک خود کش بم دھماکے میں کم ازکم 23 افراد ہلاک اور تقریباً 60 زخمی ہوگئے۔
صوبہ سمنگان میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رکن پارلیمنٹ احمد خان سمنگانی کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں ایک خود کش بمبار نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کردیا۔
ہلاک ہونے والوں میں احمد خان سمنگانی بھی شامل ہیں۔ وہ علاقے کی ایک بااثر سیاسی شخصیت تھے جب کہ افغانستان پر سویت یونین کے قبضے کے وقت وہ ایک اہم مجاہدین کمانڈر بھی رہ چکے تھے۔
مرکزی شہر ایبک میں حکام کے مطابق دھماکے کے وقت احمد سمنگانی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے کھڑے تھے۔ مرنے والوں میں انٹیلی جنس کے صوبائی سربراہ اور نیشنل آرمی کے ایک کمانڈر جب کہ زخمیوں میں بھی بعض اہم سرکاری عہدیدار شامل ہیں۔
ازبک نسل سے تعلق رکھنے والے احمد سمنگانی کی موت کو افغانستان میں نسلی بنیادوں پر کی جانے والی مصالحتی کوششوں کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا جارہا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک دشمن عناصر کی کارروائی قرار دیا۔ انھوں نے کابل سے ایک تحقیقاتی ٹیم روانہ کرنے کا بھی حکم دیا۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے افغانستان میں ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان شدت پسندوں کی طرف سے حالیہ مہینوں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ایک ایسے وقت دیکھنے میں آ رہا ہے جب بین الاقوامی افواج سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سیکورٹی فورسز کو منتقل کرنے میں مصروف ہیں اور یہ اعلان کیا جاچکا ہے تمام غیر ملکی لڑاکا فوجیں 2014ء کے اواخر تک ملک سے نکل جائیں گی۔
صوبہ سمنگان میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رکن پارلیمنٹ احمد خان سمنگانی کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں ایک خود کش بمبار نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کردیا۔
ہلاک ہونے والوں میں احمد خان سمنگانی بھی شامل ہیں۔ وہ علاقے کی ایک بااثر سیاسی شخصیت تھے جب کہ افغانستان پر سویت یونین کے قبضے کے وقت وہ ایک اہم مجاہدین کمانڈر بھی رہ چکے تھے۔
مرکزی شہر ایبک میں حکام کے مطابق دھماکے کے وقت احمد سمنگانی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے کھڑے تھے۔ مرنے والوں میں انٹیلی جنس کے صوبائی سربراہ اور نیشنل آرمی کے ایک کمانڈر جب کہ زخمیوں میں بھی بعض اہم سرکاری عہدیدار شامل ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک دشمن عناصر کی کارروائی قرار دیا۔ انھوں نے کابل سے ایک تحقیقاتی ٹیم روانہ کرنے کا بھی حکم دیا۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے افغانستان میں ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان شدت پسندوں کی طرف سے حالیہ مہینوں میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ایک ایسے وقت دیکھنے میں آ رہا ہے جب بین الاقوامی افواج سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سیکورٹی فورسز کو منتقل کرنے میں مصروف ہیں اور یہ اعلان کیا جاچکا ہے تمام غیر ملکی لڑاکا فوجیں 2014ء کے اواخر تک ملک سے نکل جائیں گی۔