پاکستان طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے: اشرف غنی

فائل

صدر اشرف غنی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہ وہاں سرگرم ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کو بند ہونا چاہیئے۔‘‘

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پیر کو ایک بیان میں پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے۔

واضح رہے کہ پیر کو کابل میں ہوائی اڈے کے داخلی راستے کے قریب ایک خودکش کار بم دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور 15 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

طالبان نے اس خودکش کار بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

کابل میں جمعہ سے اب تک یہ چوتھا بڑا دھماکا تھا جن میں مجموعی طور پر 50 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

صدر اشرف غنی نے پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں پاکستان میں ہیں اور وہ وہاں سرگرم ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کو بند ہونا چاہیئے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان پناہ گاہوں سے دہشت گرد افغانستان کو جنگ کا پیغام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے امن کے لیے پر خلوص کوششیں کیں جو سب کے سامنے ہیں۔

انھوں نے اتوار کو وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کو بھی اسی نظر سے دیکھے جس نظر سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو دیکھتا ہے۔‘‘

صدر اشرف کے بیان کے کچھ اقتباسات اُن کے ’ٹوئیٹر‘ اکاؤنٹ پر بھی جاری کیے گئے جن کے مطابق افغان صدر نے طالبان سے کہا کہ ’’جو لوگ اپنے ملک کو تباہ نہیں کرنا چاہتے وہ مجرموں اور باغیوں کی صفوں کو چھوڑ کر معاشرے کا حصہ بنیں۔‘‘

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ جب بھی امن کی کوئی صورت نظر آتی ہے، تو دشمن ظلم اور تشدد کا راستہ اپناتا ہے۔

’’دہشتگردی کا مسئلہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔ افغانستان، سعودی عرب، شام، ترکی اور دیگر مسلمان ممالک میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات ایک ہی طرز کے ہیں۔‘‘

’’دہشتگردوں کو میدان جنگ میں شکست دے دی گئی تو انہوں نے عوام اور شہروں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔‘‘

’’ہم اس مسئلے پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس مقصد کے لیے خطے میں اتفاق رائے پیدا کریں گے۔‘‘

گزشتہ برس صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر اشرف غنی کے پاکستان سے قریبی تعلقات رہے ہیں اور دوطرفہ روابط میں نمایاں بہتری بھی دیکھی گئی۔

تعلقات میں بہتری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ افغان طالبان کے نمائندوں اور افغانستان کی حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئے تھے۔

مذاکرات کے اس مرحلے کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا تھا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی پاکستان کی طرف سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق افغان صدر نے اتوار کی شب وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا جس میں دیگر معاملات کے علاوہ مصالحتی عمل پر بھی بات چیت کی گئی۔

تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

واضح رہے کہ کابل میں جمعہ کو تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد بم دھماکوں میں کم از کم 50 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔

کابل میں جمعہ کو ہونے والے خودکش بم حملوں کے بعد سے سکیورٹی ’ہائی الرٹ‘ ہے۔

اُدھر ہفتہ کو شمالی صوبہ قندوز میں بم دھماکوں میں 29 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تشدد کی حالیہ لہر ایسے وقت دیکھی جب حال ہی میں افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی تصدیق کے بعد ملا اختر منصور کو تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔

افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا ایک دور گزشتہ ماہ کے اواخر میں پاکستان ہی میں طے تھا لیکن ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد بات چیت کا یہ دور موخر کرنے کا اعلان کیا گیا۔

افغانستان میں حالیہ حملوں کے بعد مذاکرات کے اس عمل کے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔