ایسے وقت میں جب دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے عہدیدار افغانستان میں انسانی بحران، بینکاری پر پابندیوں اور افغانستان کے منجمد اثاثوں کے افغان عوام کے لیے استعمال پر مذاکرات کر رہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ نےباور کرایا ہے کہ ان مذاکرات کا مطلب کسی طور طالبان کو تسلیم کرنا نہیں بلکہ مشکلات سے دوچار افغان عوام کی مدد کرنا ہے۔ ادھر پاکستان کی وزیر ملکت برائے خارجہ امور حنا ربّانی کھر نے طالبان حکومت کے تحت افغانستان کے خلاف مغربی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان معیشت کے بنیادی انحصار کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
پچھلے سال افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی حکومتوں نے ملک کے لیے ترقیاتی اور سیکورٹی امداد میں کٹوتی کردی تھی جس کے نتیجے میں پابندیوں کے سخت نفاذ نے افغان بینکنگ سیکٹر کو کمزور کر دیا ۔
جمعرات کو جرمنی کے ’ویلے‘ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ افغانستان کو معاشی طور پر تنہا کرکے ملک کو معاشی طور پر تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک پر بین الاقوامی بینکنگ کے دروازے بند رہتے ہیں اور اس کے غیر ملکی اثاثے منجمد رہتے ہیں، تو پھر ایسی صورت حال پید ہو گی۔" ہمیں قحط کو فروغ نہیں دینا چاہیے‘‘ ۔
وزیر مملکت کھر نے یہ انٹرویو ایک اسے موقعے پر دیا جب امریکہ اور طالبان اس ہفتےکے آخر میں دوحہ میں مذاکرات کر رہے ہیں ، توقع کی جا رہی ہے کہ اِس ملاقات میں دونوں فریقوں کی توجہ افغانستان کی معیشت اور بنکاری پر عائد پابندیوں جیسے امور پر مرکوز رہے گی۔افغانستان میں گزشتہ ہفتے آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعدوہاں پہلے سے جاری انسانی بحران میں مزید شدت آئی ہے۔
اِس ملاقات میں شرکت کے لیےطالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی، وزارت خزانہ کے سینئر عہدیداروں اور افغان سنٹرل بینک کے نمائندوں کے ہمراہ بدھ کو دوحہ روانہ ہو گئے تھے۔
گفتگو کے مجوزہ فریم ورک میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ دہشت گردی سے حکمرانی تک پہنچنے والے طالبان اس رقم سے فائدہ نہ اٹھا سکیں اور اِسے صرف انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جا ئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں چالیس ملین یعنی چار کروڑ افراد کو ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
SEE ALSO: امریکہ اور طالبان کی دوحہ میں ملاقات،منجمدافغان اثاثے جاری کرنے پر بات چیت متوقع
ادھر امریکہ کے محمکہ خارجہ سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے ہمراہ ٹریژری کے ڈپٹی جنرل کونسلر ایڈر لیوی اور یو ایس ایڈ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ماریہ لونگی کی اعلیٰ سطحی طالبان کے نمائندے کے ساتھ اس کے بعد پہلی ذاتی ملاقات ہو گی جب انہوں نے 23 مارچ کو خواتین پر کالج کی سطح کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔
محکمہ خارجہ سے جاری بیان کے مطابق ان مذاکرات میں لڑکیوں کے سیکنڈری سکول جانے پر پات چیت ہوگی اور امریکہ افغانستان میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھے گا۔ بشمول انسداد دہشت گردی، اقتصادی استحکام، انسانی حقوق، محفوظ راستہ، اور افغانستان میں تمام اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے۔ ہم پوری توجہ کے ساتھ ان مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تاہم ترجمان کا کہنا ہے کہ ان روابط کو کسی طرح بھی طالبان یا اس کی نام نہاد حکومت کو ’’جائز‘‘ قرار دینے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ ہمیں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اس طرح کے مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
وفد اس بارے میں بھی بات چیت کرے گا کہ گزشتہ ہفتے کے زلزلے کے بعد افغانستان میں لوگوں کی مدد کیسے کی جاسکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکی انتظامیہ نے 9/11 کے حملوں کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے امریکی بینکوں میں افغان حکومت کے تقریباً 9.5 بلین ڈالر کے ذخائر منجمد کر دیے تھے۔
پابندیوں کے نتیجے میں افغان بینکوں نے پرائیویٹ صارفین کی طرف سے رقم نکالنے پر بھی سخت پابندیاں عائد کیں، اور ملک میں بہت سے لوگوں کو اپنے خاندانوں کے لیے کھانا خریدنے کے لیے گھریلو سامان فروخت کرنے کا سہارا لینا پڑا۔
امریکہ نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی فوری مدد کے لیے 55 ملین ڈالر دے گا۔یہ رقم ضروری اشیائے خورو نوش، کپڑوں، کھانے پکانے کے سامان، کمبلوں، جیری کینز اورصفائی کے سامان کی فراہمی پر خرچ ہو گی تاکہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچا جا سکے۔
امریکہ، افغانستان کے لیے عطیات دینے والاسب سے بڑا ملک رہا ہے اور اس نے، محکمہ خارجہ کے مطابق، گزشتہ ایک سال کے دوران 774 ملین ڈالر افغانستان کو انسانی بحران میں امداد کے طور پر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کی افغانستان کے عوام کے لیے ایک پائیدار وابستگی ہے اور ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کی جانب سے اس انتہائی ضرورت کے وقت مدد کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
(خبر کا کچھ مواد رائیٹرز سے لیا گیا)