امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے امریکی قیادت میں جاری افغان جنگ 2011ء میں ایک "اہم موڑ" پر پہنچ گئی ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع منگل کو کابل پہنچے ہیں جہاں ان کی افغانستان میں تعینات امریکی فوجی کمانڈروں اور افغان حکام سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔ ان کے اس دورے کا مقصد طالبان کے خلاف جاری لڑائی میں پیش رفت کا جائزہ لینا ہے۔
افغان دارالحکومت کی جانب سفر کے دوران ہوائی جہاز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیون پنیٹا کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں تعینات نیٹو فواج کی مرحلہ وار واپسی شروع ہونے والی ہے، افغان افواج اور پولیس اپنےملک کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر براک اوباما نے رواں برس کے اختتام تک افغانستان سے 10 ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ آئندہ برس اکتوبر تک مزید 23 ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا عمل میں لایا جائے گا۔
نیٹو حکام اس عرصے کے دوران افغان علاقوں کی سیکیورٹی مرحلہ وار مقامی فورسز کے سپرد کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی ذمہ داریوں کی منتقلی کے اس عمل کو افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں در آنے والی حالیہ کشیدگی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔
دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو میں امریکی وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ ان ملک "پاکستان سے تعلقات بہتر بنائے بغیر افغانستان میں جاری جنگ جیت نہیں سکتا ہے"۔
انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان ایلن نے پاکستانی فوج کے ذمہ داران سے رابطے کیے ہیں تاکہ سرحدوں کے آر پار سلامتی سے متعلق تعاون کو بحال کیا جاسکے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے مہمند میں فوجی چوکیوں پر گزشتہ ماہ کیے گئے امریکی حملے کے بعد اسلام آباد نے بطورِ احتجاج افغانستان میں موجود نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی فراہمی معطل کردی تھی جو تاحال بحال نہیں ہوسکی ہے۔
نیٹو کا موقف ہے کہ اس کے طیارے علاقے میں موجود شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور فوجی چوکیوں کو دانستہ نشانہ بنانے کے پاکستانی الزام میں صداقت نہیں۔ چھبیس نومبر کو کیے گئے اس حملے میں 24 پاکستانی فوجی اہلکا ر ہلاک ہوگئے تھے۔