طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان میں 18 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں خلل ڈالنے کی دھمکی دیتے ہوئے افغانوں سے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کو کہا ہے۔
ملک میں اس وقت تقریباََ ایک لاکھ پچاس ہزار غیر ملکی افواج تعینات ہیں لیکن اس کے باوجود مقامی اور غیر ملکی اہداف پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملوں میں اس سال غیر معمولی تیز ی آئی ہے۔
طالبان کے ترجمان زبیع اللہ مجاہد نے میڈیا کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”انتخابات ایک غیر ملکی عمل ہے جس کا مقصد افغانستان پر قبضے کو طول دینا ہے“۔ ترجمان کے بقول یہی وجہ ہے کہ طالبان اس عمل کے مخالف ہیں اور انتخابات کے دوران حملوں کا ہدف غیر ملکی اور وہ افغان ہوں گے جو اس میں حصہ لیں گے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ جمعہ کو ایک فضائی حملے میں صوبہ تخار میں ایک انتخابی اُمیدوار اور اُن کی انتخابی مہم میں شامل دس کارکن ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا پر امن انعقاد مقامی اور بین الاقوامی افواج کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا ۔ اقوام متحدہ اور افغان حکومت کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں میں انتخابات میں حصہ لینے والے چار اُمیدواروں کو اب تک ہلا ک کیا جا چکا ہے۔
افغانستان میں تعینات بین اقوامی افواج کا کہنا ہے کہ اتوار کو ملک کے جنوبی حصے میں شدت پسندوں کے حملے میں اُس کا ایک فوجی ہلاک ہو گیا۔ ہلاک ہونے والے فوجی کی قومیت اور اس واقعہ کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
جنوبی افغان صوبے طالبان جنگجوؤں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں جہاں تعینات اتحادی افواج پر شدت پسند وں کے خصوصاََ سڑک میں نصب بم دھماکے ایک معمول بن گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے جاری جنگ کے نو برس مکمل ہونے کو ہیں تاہم اتحادی حلیفوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں امن قائم کرنا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
ایک روز قبل افغان صدر حامد کرزئی نے اعلان کیا تھا کہ انھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے امن کونسل قائم کر دی ہے۔ ایک صدارتی بیان میں کونسل کے قیام کو مذاکراتی عمل کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔
کونسل کے ارکان کا چناؤ ابھی نہیں کیا گیا ہے البتہ صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ اس میں سابق طالبان اور جہادی رہنماؤں سمیت اہم سماجی شخصیات اور خواتین شامل ہوں گی۔ جون میں کابل میں منعقد ہونے والے قومی امن کانفرنس میں اس کونسل کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا تھا۔