افغان فورسز نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طالبان کے خلاف متعدد فضائی اور زمینی حملے کیے، جس میں ان کے دعوے کے مطابق 51 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان حالیہ امن بات چیت میں تعطل پیدا ہونے کے بعد جھڑپوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع نے اتوار کے روز کہا ہے کہ سرکاری فورسز نے ملک کے 9 صوبوں میں طالبان پر 13 زمینی اور 12 فضائی حملے کیے، جس میں 51 دہشت گرد وں کو ہلاک کیا گیا۔ حملوں میں 13 طالبان زخمی ہوئے اور 6 کو گرفتار کر لیا گیا۔
شمالی صوبے بلخ میں مقامی عہدے داروں نے بتایا ہے کہ فضائی حملوں میں کم ازکم تین عورتیں اور چار بچے ہلاک ہو گئے جس کے بعد لوگوں نے گورنر ہاؤس کے سامنے اکھٹے ہو کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
گورنر نے وعدہ کیا کہ وہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کے لیے ایک ٹیم بھیجیں گے۔
ایک اور خبر کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ انہوں نے اختتام ہفتہ سیکیورٹی فورسز پر دو سے زیادہ حملے کیے۔
طالبان کے ترجمان ذبح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے ہفتے کی رات قندوز میں افغان سیکیورٹی فورسز کی دو پڑتالی چوکیوں کو نشانہ بنایا جس میں 10 سیکیورٹی اہل کار ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی کے دوران بھاری مقدار میں ہتھیار اور گولا بارود اپنے قبضے میں لے لیا۔
ایک اور بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ ان کے جنگجوؤں نے بلخ میں افغان فورسز کی ٹیم پر اچانک حملہ کر کے 8 اہل کاروں کو ہلاک کر دیا۔
افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان یہ تازہ جھڑپیں، دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان صلاح و مشورے کے لیے دو دن کے تعطل کے دوران ہو ئے۔
دونوں فریقوں کے درمیان امن مذاکرات دوحہ میں گزشتہ سال شروع ہوئے تھے مگر ستمبر اور دسمبر میں طالبان کے حملوں اور ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد بات چیت میں دو بار تعطل آیا۔
پچھلے ہفتے دوحہ میں امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے درمیان امن بات چیت کا ایک اور دور شروع ہوا۔
گفتگو سے متعلق قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان اندورنی طور پر امریکی فورسز کے خلاف حملے روکنے اور افغان حکومت کی تنصیبات پر حملوں میں کمی کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔
لیکن گزشتہ ہفتے طالبان جنگجوؤں نے ملک کے مختلف حصوں میں پولیس کے مراکز سمیت سرکاری تنصیات پر حملے جاری رکھے۔