افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کا انخلا شروع ہونے کے بعد طالبان ملک کے 65 فی صد حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔یہ بات یورپی یونین کے سینئیر عہدے داروں نے منگل کے روز بتائی ہے ۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، یورپی یونین کے ایک سینئر عہدے دار نے منگل کے روز بتایا کہ اس وقت طالبان افغانستان کے 65 فی صد حصے پر قابض ہو چکے ہیں جب کہ 11 صوبائی صدر مقام ان کے نشانے پر ہیں۔ اور وہ کابل کو اس روایتی حمایت اور مدد سے محروم کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اسے شمال کی جانب سے ملتی ہے۔
دوسری طرف کابل میں صدر اشرف غنی نے خطے کے ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی حکومت کی مدد کریں، جب کہ اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا یہ کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی پیش قدمی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان عسکریت پسند جہاں صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی کوششیں کر رہے ہیں، وہاں فتح کیے ہوئے علاقوں میں اپنے تسلط کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ شمال اور ملک کے دوسرے حصوں میں جہاں طالبان کی پیش قدمی اور سرکاری فورسز کے ساتھ لڑائیاں جاری ہیں، لوگوں میں بے یقینی بڑھ رہی ہے اور وہ محفوظ مقامات کی جانب فرار ہو رہے ہیں۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے سمنگان کے صدر مقام ایبک پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان شمال میں مزار شریف اور کابل کو ملانے والی شاہراہ پر اپنا قبضہ مستحکم کر رہے ہیں جب کہ زیادہ تر سرکاری فورسز بظاہر پسپا ہو چکی ہیں۔
عام شہری کہاں جائیں؟
جن لوگوں کے پاس وسائل محدود ہیں، وہ اپنے گھروں کے اندر محصور ہو گئے ہیں۔ ایبک میں رہائش پذیر محکمہ ٹیکس کے ایک عہدے دار شیر محمد عباس نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کابل نہیں جا سکتے تو پھر بہتر یہ ہے کہ گھر کے اندر تالا ڈال کر بیٹھ جائیں۔
عباس نو افراد کے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔ چند لمحے چپ رہنے کے بعد وہ بولے، "اب کابل جانا بھی کونسا محفوظ رہ گیا ہے۔"
لڑائی کا احوال بیان کرتے ہوئے عباس نے کہا کہ وہ منگل کے روز اپنے دفتر میں کام کر رہے تھے کہ طالبان وہاں آ گئے اور انہوں نے سارے عملے سے کہا کہ وہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ عباس کا کہنا تھا کہ ہم نے شہر کے کسی حصے میں لڑائی دیکھی اور نہ ہی گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ بس طالبان کو آتے ہوئے دیکھا۔
طالبان کی حکمت عملی کیا ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کی بظاہر حکمت عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ پہلے شمال، پھر مغرب اور جنوبی حصے پر قبضہ کیا جائے اور آخر میں کابل کی جانب بڑھا جائے۔
تبدیل ہوتی ہوئی زمینی صورت حال کے پیش نظر کابل کی حکومت نے دیہی علاقوں سے اپنی فورسز نکال کر بڑے شہروں اور آبادی کے بڑے مراکز کی حفاظت پر تعینات کر دی ہیں کیونکہ دیہی علاقوں کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان پر دباؤ میں اضافہ
افغان حکومت کے عہدے داروں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ مبینہ طور پر اپنی کمزور نگرانی کی سرحد کے راستے طالبان کو ملنے والی کمک اور سامان رسد روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ پاکستان طالبان کی کسی بھی قسم کی مدد سے انکار کرتا ہے۔
امریکہ اگرچہ سرکاری فورسز کی مدد کے لیے طالبان کے خلاف فضائی کارروائیاں کر رہا ہے لیکن پینٹاگان کا کہنا ہے کہ کابل کو اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔
طالبان اور سرکاری عہدے داروں نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے شمالی، جنوبی اور مغربی حصوں میں چھ صوبائی صدر مقام طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں۔
صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری میں ایک سیکیورٹی عہدے دار نے بتایا کہ سرکاری فورسز نے لڑے بغیر ہی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
60 ہزار خاندان بے گھر ہو چکے ہیں
سانحات اور قدرتی آفات کی صورت حال سے نمٹنے کے قومی ادارے کے سربراہ غلام بہاؤالدین جیلانی نے بتایا کہ ملک کے 34 صوبوں میں سے 25 میں لڑائیاں ہو رہی ہیں اور پچھلے دو مہینوں کے دوران 60 ہزار سے زیادہ خاندان بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر نے کابل میں پناہ لے رکھی ہے۔
یورپی یونین کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعدا تقریباً چار لاکھ ہے جب کہ گزشتہ دس روز کے دوران ایران کی جانب فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران کی سرحد کے ساتھ واقع صوبہ فرح کے صدر مقام فرح کے ایک رہائشی نے منگل کے روز بتایا کہ طالبان گورنر ہاؤس پر قابض ہو چکے ہیں جب کہ شہر کے کچھ علاقوں میں سرکاری فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سربراہ مشیل بیچلٹ نے کہا ہے کہ افغانستان سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایسی رپورٹس بھی آ رہی ہیں جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے دائرے میں آتی ہیں، خاص طور پر ہتھیار ڈالنے والے سرکاری فوجیوں کو سرسری سماعت کے بعد ہلاک کرنے کی اطلاعات بہت پریشان کن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "لوگوں کا یہ خوف بجا ہے کہ طالبان کے قبضے میں اقتدار آنے سے گزشتہ دو عشروں میں حاصل کیے جانے والے انسانی حقوق ملیا میٹ ہو جائیں گے"۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں 183 عام شہریوں کی ہلاکتوں اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس نے کہا ہے کہ اس مہینے کے آغاز سے اب تک ملک بھر میں اپنے 15 مراکز میں اس کا عملہ 4000 سے زیادہ افغان شہریوں کو طبی امداد فراہم کر چکا ہے۔
ٹوٹے پھوٹے گھر، تباہ شدہ انفراسٹرکچر اور پریشان لوگ
ریڈکراس کے افغان مشن کے سربراہ ایلوئی فلیئن نے کہا ہے کہ "ہمیں ٹوٹے پھوٹے اور تباہ شدہ گھر دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمارا عملہ اور مریض شدید خطرے میں ہیں۔ اسپتالوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بجلی اور پانی کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہروں کے اندر بارودی اور دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال سے لوگوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ بہت سے خاندانوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے کہیں چلے جائیں۔ اس سلسلے کو لازمی رکنا چاہیے۔
ریڈکراس کا کہنا ہے کہ قندوز، لشکرگاہ اور دوسرے کئی شہروں میں گزشتہ کچھ دنوں سے گلی گلی کوچے کوچے لڑائیاں ہو رہی ہیں جن میں سینکڑوں عام شہری زخمی ہو ئےہیں، جب کہ طبی مراکز کو پہنچے والے نقصانات اور عملے کی قلت سے طبی سہولتوں کی فراہمی پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے۔
شمالی کمانڈر مزاحمت کے لیے پرعزم
شمالی ملیشیا کے ایک کمانڈر عطا محمد نور نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مایوسی اور بے بسی کی زندگی گزارنے کی بجائے عزت سے مرنے کو ترجیج دیں گے۔
مزار شریف پر طالبان تین اطراف سے حملہ کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مزار شریف کا ہاتھ سے نکلنا صدر غنی کی حکومت کے لیے ایک پریشان کن دھچکا ہو گا۔
طالبان نے کہا ہے کہ انخلا کرتی ہوئی امریکہ اور نیٹو کی افواج پر حملہ نہیں کریں گے تاہم وہ کابل کی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔