افغان جنگ اور پاک امریکہ تعلقات

  • ندیم یعقوب

Pakistan's Prime Minister Raza Gilani, left, speaks with Afghanistan's President Hamid Karzai during a news conference in Kabul, Afghanistan, Saturday, April 16, 2011. Peace with the Taliban, trade and security issues top the agenda of Karzai's talks Satu

پاکستان اور امریکہ کے سٹرٹیجک تعلقات کی ایک بڑی وجہ افغانستان ہے۔ اور دفاعی ماہرین موجودہ سال کو افغان جنگ کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں، جولائی سے امریکہ اپنے کچھ فوجی دستوں کوافغانستان سے واپس بلانے کا کام شروع کر نےوالا ہے اور آئندہ چند ماہ کے دوران امریکی وزیر دفاع ،افغانستان میں امریکی سفیر اور اعلیٰ فوجی قیادت میں تبدیلی کی توقع کی جارہی ہے ۔اسی پس منظر میں حال ہی میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا کابل کا دورہ اور اب امریکہ کےچیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن کی اسلام آباد آمد بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ٕامریکی ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی کی کامیابی کے لئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان اتفاق رائے بہت ضروری ہے۔

امریکہ کےچیرمین جوائنٹ چیفز آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، اسی سال کے دوران ان کے عہدے کی مدت پوری ہورہی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریس بھی سال کے آخر تک ریٹائر ہوجائیں گے۔ اور اسی عرصے کے دوران امریکہ کے نئے وزیر دفاع اپنا عہدہ سنبھال چکے ہونگے۔ماہرین کا خیال ہے امریکہ میں یہ انتظامی تبدیلیاں خطے کے لئے اہم ہیں۔

امریکی تجزیہ کار برائن کیولس کہتے ہیں کہ ظاہر ہے جو لوگ اس وقت قیادت کر رہے ہیں وہ اہم ہیں مگر ایک جامع حکمت عملی کا ہونا زیادہ اہم ہے۔ میرے خیال میں جس چیز کی کمی رہی ہے وہ خطے کے لئے ایک سفارتی حکمت عملی اورپاکستان اور افغانستان کو اپنے پاؤں پر کھڑاہونے میں مدد کے لئے گورننس اور سیاسی حکمت عملی۔ فوجی اورسفارتی قیادت میں ناموں اور چہروں کا تبدیل ہونا اہم تو ہے مگرواشنگٹن میں اعلیٰ قیادت صدر تا وزیر خارجہ اوروزیر دفاع، سب کومیدان میں موجود اپنی ٹیم کو حکمت عملی کے بارے میں احکامات بہت واضح کرنے ہونگے اور ان میں ہم آہنگی ہونی چاہیےجو پہلےکم ہی نظر آتی تھی۔

امریکی ماہرین کا ماننا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنے میں پاکستان اہم کردار اد اکر سکتا ہے۔ مگر اسلام آباد میں دورے کے دوران ایڈمرل مائیک ملن نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان جاری سرد مہری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پیچیدگیاں بڑھی ہیں۔ بظاہر ان اختلافات کی ایک بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی ہیں۔ واشنگٹن میں میں واقع تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سیاسی تجزیہ نگار مارون وائن بام کاکہنا ہے کہ امریکہ ڈرون کا استعمال ترک نہیں کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کرتا امریکہ اور نیٹو کے پاس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ایک ہی ہتھیار رہ جاتا ہے وہ ڈرونز ہیں۔ ہم افغانستان میں فوج پر دباؤ کی صورت میں بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہم اس ہتھیار کا استعمال ترک نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں اس کا استعمال جاری رہے گا ۔ صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے استعمال کے فیصلوں میں پاکستان کو کسی حد تک شامل کر لیا جائے۔

امریکہ کا موقف ہے کہ افغانستان میں کسی بھی جنگی حکمت عملی کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے۔ امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس سے منسلک سینیئر فیلو برائن کیٹولس کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے درمیان دیرپا اور مضبوط تعلقات کے لئے اقدامات کرنے ہونگے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو دیرپا باہمی تعلقات کے لئے اعادہ کرنا ہو گا جو وہ پہلے بھی کئی بار کرچکا ہے۔اور اگر صدر اوباما اس سال پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو اس سے طویل المدت باہمی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کو سنجیدگی سے ملک کے اند ر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگا اورافغانستان میں ٕ کارروائیاں کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کے لئے پاکستان کی حدود کے اندر محفوظ پنا ہ گاہوں کو ختم کرنا ہوگا۔

افغانستان میں امریکی جنگ کو دس سال ہونے والے ہیں ۔ امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کو پچھلے ایک سال میں افغانستان میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے مگر موجودہ حالات میں اس کامیابی کو مستحکم تصور نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی کے بارے میں ابھی بھی بہت سے سوال حل طلب ہیں۔