مشرقی افغانستان کے دانغام ضلع میں ، امریکی فوج کی 173ویں ایئر بریگیڈ ضلعی حکام سے میٹنگ کے لیے جا رہی ہے ۔ اس میٹنگ میں پہنچنے کے لیے سپاہیوں کو ایک چوڑے خشک دریائی راستے سےہو کر گذرنا پڑے گا۔ پہلے، یہ ایک بڑا مسئلہ ہوتا۔ بہت سے موقعوں پر، طالبان نے خشک دریا سے گذرتی ہوئی گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا ہے ۔ عام ہَموی Humvee نسبتاً ہلکی گاڑی ہوتی ہے اور دشمن کی فائرنگ کی زد میں آ جاتی ہے ، اور بھاری گاڑیاں جو بارودی سرنگوں اور اچانک حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی ہیں، بہت زیادہ ڈھلوان سطحوں کے لیے بہت بھاری ہوتی ہیں۔
ان گاڑیوں کو مائن ریزسٹنٹ، ایمبُش پرٹیکٹڈ ٹرک (ایم آراے پی )یعنی بارودی سرنگوں اور گھات لگا کر حملوں سے محفوظ رہنے والے ٹرک کہا جاتا ہے ۔ لیکن حال ہی میں، 173 ویں ایئر بریگیڈ کو اپنی پہلی آل ٹیرین وہیکل ملی ہے جو ہر قسم کے حالات میں نقل و حرکت کر سکتی ہے ۔ 30 ٹن وزن کی یہ گاڑی ، ہر قسم کی زمینی سطح پر نقل و حرکت کر سکتی ہے اور اس میں اتنا بکتر لگا ہوا ہے کہ وہ ہر قسم کے بموں کو بے اثر کر دیتی ہے ۔
ایم آر اے پی سب سے پہلے عراق میں استعمال ہونا شروع ہوئے ۔ وہاں گھریلو ساخت کے زمین میں چھپائے ہوئے بموں سے بڑی تعداد میں ایم۔115 ہمویز تباہ ہو رہی تھیں جب کہ ایم آراے پی ٹرک بموں کے دھماکے برداشت کر سکتے تھے۔ یوں ان کی بدولت سینکڑوں امریکی سپاہیوں کی جانیں بچیں۔
لیکن یہ ٹرک افغانستان میں زیادہ کامیاب نہیں رہے ۔ بہت زیادہ بھاری ہونے کی وجہ سے یہ پہاڑی سڑکوں پر لڑھک جاتے تھے ۔ اس مشکل سے نمٹنے کے لیے پینٹاگون نے بہترسسپنشن والے نسبتاً ہلکے چار ارب ڈالر مالیت کے ایسے 6,000ٹرک بنانے کا آرڈر دیا جو ہر قسم کی سطح پر حرکت کر سکتے ہیں۔ ان ٹرکوں کوایم۔اےٹی وی یا آل ٹیرین وہیکل کہا جاتا ہے ۔ گذشتہ سال کے آخر میں ان ٹرکوں کی پہلی کھیپ افغانستان پہنچ گئی۔
کابل کے باہر بگرام کے ہوائی اڈے پر، سارجنٹ فرسٹ کلاس رینڈی گرینجر ، 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے سپاہیوں کو یہ گاڑیاں چلانے کی تربیت د ے رہے ہیں۔ گرینجر اس گاڑی کے بڑے مداح ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ میرے خیال میں اس قسم کی سطح زمین کے لیے یہ گاڑیاں بہت موزوں ہے ۔ اس میں ٹائر میں ہوا بھرنے کا سسٹم موجود ہے۔ یہ بے حد مضبوط ہے اور میرے خیال میں یہ ہر قسم کے حالات میں استعمال کی جا سکتی ہے ۔ دوسری گاڑیوں کے مقابلے میں اسے استعمال کرنا نسبتاً آسان ہو گا۔‘‘
لیکن یہ بڑی مہنگی گاڑیاں ہیں۔ ان کی قیمت ہموی سےتین گنی ہے ۔ایم۔اے ٹی وی کا میکینکل نظام بہت پیچیدہ ہے ۔ 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے میکینک اسٹاف سارجنٹ رچرڈ گرین کو اس کا ذاتی تجربہ اس وقت ہوا جب اتفا قاً ان سے پہلی ایم۔اےٹی وی خراب ہو گئی۔ وہ کہتے ہیں’’تیل کے پین کے اندر کی طرف ایک نٹ لگا ہوا ہے۔ اس کا بولٹ باہر نکل آیا۔ لیکن نٹ کو تیل کے پین میں صحیح طریقے سے ویلڈ نہیں کیا گیا تھا۔ بولٹ کے نکلنے کے بعد، پین میں تیل روکنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ ہمیں پورا انجن پیک نکال کر ، دوسرا یونٹ لگانا پڑا۔‘‘
ایم۔اےٹی وی کو صحیح مقام پر پہنچانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ چونکہ ان کی مانگ بہت زیادہ ہے اس لیے پینٹا گون انہیں ہوائی جہاز سے بھیجتی ہے ۔ اس طرح اس کی قیمت میں مزید دس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے ۔ پھر ان پانچ گاڑیوں کی ایک کھیپ کو اتارنے میں دس آدمیوں کو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سامان بردار بوئنگ 747 جہاز میں ، ایم۔اے ٹی وی لادنے کے بعد جہاز کی سائڈ میں صرف چند سینٹی میٹر کی جگہ باقی بچتی ہے ۔لیکن اگلے مورچوں پر لڑنے والے سپاہی اس کی بالکل فکر نہیں کرتے کہ ان گاڑیوں کو لانے لیجانے میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ زیادہ محفوظ ہے اور دوسری گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے ۔
سارجنٹ گرینجر کہتے ہیں’’ہموی کے مقابلے میں، ایم آراے پی سے ملتی جلتی کسی گاڑی میں ، میں خود کو زیادہ پُر اعتماد اور محفوظ سمجھتا ہوں۔‘‘
اور یہ گاڑی انہیں بحفاظت ان کی منزل مقصود پر پہنچا دیتی ہے ۔