افغانستان کی جنگ اب امریکہ کے لیے طویل ترین جنگ ہوگئی ہے، اور ’کرسچن سائنس مانیٹر ‘ کہتا ہے کہ اکتوبر 2001سے اتحادی فوجیوں کے 2500سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جِن میں سے آدھے سے زیادہ امریکی تھے، جب کہ اِسی دوران دسیوں ہزاروں افغان ہلاک و زخمی ہوچکےہیں۔
پورے امریکہ میں لوگ ایسے سپاہیوں، نیوی اور میرینز کے فوجیوں اور ایئر فورس کے ارکان کو جانتے ہیں جو امریکہ کی اس طویل ترین جنگ میں شریک رہ چکے ہیں۔اِس جنگ پر ہر ماہ سات ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور اِسے جاری رکھنے پر تشویش بڑھتی جارہی ہے۔
اگلے ماہ سے فوجوں کی معمولی سی تعداد کا انخلا شروع ہوگا اور رواں عشروں کے وسط تک اتحادی فوجوں کا بیشتر حصہ وہاں سےجاچکا ہوگا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اب جب کہ لڑائی کی تُندی دھیمی پڑنے والی ہے، قدرتی طور پر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آیا افغانستان پھر وہی دور دراز علاقہ بن جائے گا جِس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں ہوگا؟
یہ سوال لوزیانہ یونیورسٹی کے جان ہیملٹن نے پوچھا ہے جنھوں نے باقی ماندہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایک عشرے کے دوران جنگوں کی وجہ سے جو بہت زیادہ بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ہے اُس کے نتیجے میں بے شمار امریکیوں میں باقی ماندہ دنیا سے منہ موڑنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔اگرچہ یہ ابھی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ جانے کا رجحان نہیں ہے۔
’بالٹیمور سَن‘ نے سبک دوش ہونے والے وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کے اُس انتباہ پر تبصرہ کیا ہے جو اُنھوں نے افغانستان سے فوجوں کی جلد واپسی کے خلاف کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طالبان کو جِن علاقوں سے مار بھگایا گیا تھا وہ وہاں پھر سے واپس آجائیں۔
مسٹر گیٹس نے کہا تھا کہ بغاوت کو کمزور تو کیا گیا ہے لیکن اُسے شکست نہیں ہوئی۔ اور فوج کو اپنا دباؤ برقرار رکھنا چاہیئے، کیونکہ اُسی صورت میں طالبان کو امن مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
اخبار نے کہا ہے کہ مسٹر گیٹس کو جو تشویش ہے اُس میں ہم بھی شریک ہیں، لیکن نائب صدر جو بائیڈن کی اِس دلیل میں بڑا وزن ہے کہ بن لادن کی ہلاکت اور افغان فوج اور پولیس کی اہلیت اور کارکردگی میں بہتری آنے سے افغانستان کا اسٹریٹجک منظرنامہ اب بدل دیا ہے۔
اخبار ’سیکریمنٹو بے‘ کے کالموں میں یہ بحث جاری ہے آیا ریپبلیکن پارٹی کے لیڈروں میں کوئی ایسا شخص اُبھر رہا ہے جو صدر اوباما کو اگلے سال کے انتخابات میں ہرادے۔
اخبار کہتا ہے کہ رائے عامہ کے بیشتر جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام میں صدر براک اوباما کی پسندیدگی کی شرح لگ بھگ 50فی صد ہے۔ لیکن، بے روزگاری کی شرح اب بھی زیادہ ہے۔
مئی کے مہینے میں بیروزگاری کی شرح 9.1فی صد تھی، اور فرینکلن روزویلٹ کے بعد سے کوئی صدر دوبارہ منتخب نہیں ہوا ہے اگر بے روزگاری کی شرح 7.2سے زیادہ ہو، جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سنہ 2012کے صدارتی انتخابات میں صدر اوباما کی پوزیشن خاصی زد میں ہے۔
ایک قاری لکھتا ہے کہ کیا ریپبلیکن قیادت میں رونالڈ ریگن کی طرح کوئی ایسا شخص اُبھر رہا ہے جس نے جمی کارٹر کو 1980ء میں ہرا دیا تھا۔
اُن کے خیال میں اُن میں سے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ریگن جیسا زیرک ہو اور اُس کی طرح کی سیاسی صلاحیت رکھتا ہو۔
آگے چل کر یہ قاری کہتا ہے کہ پچھلے تین سال سے جو سبق ملا ہے وہ یہ ہے کہ ہم مسیحا کو نہیں بلکہ ایک صدر کو منتخب کر رہے ہیں اور ہر مرتبہ ہوتا یہ ہے کہ امید کے مقابلے میں قابلیت فتحیاب ہوتی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: