امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ وہ افغان باشندے جو گرفتاری اور نکالے جانے کے خوف سے پاکستان سے بھاگ رہے ہیں سرحد پار کرکے جب اپنے وطن افغانستان پہنچتے ہیں تو وہ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں، جہاں نہ کوئی مناسب پناہ گاہ ہے، نہ خوراک اور پانی کا معقول بندو بست ہے جب کہ بیت الخلا بھی موجود نہیں ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں لاکھوں افغان پاکستان سے جا چکے ہیں۔ پاکستانی حکام گھر گھر جاکر ان غیر ملکیوں کے کاغذات دیکھ رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
پاکستان نے غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے ملک سے نکلنے کی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر مقرر کی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ اس کے بعد غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ان کوگرفتار کر لیا جائے گا۔
افغان باشندے پاکستان سے دو بڑی سرحدی گزرگاہوں طورخم اور چمن کے راستے واپس افغانستان جا رہے ہیں۔
طالبان نے سرحد پار افغانستان میں کیمپ قائم کیے ہیں تاکہ پاکستان سے آنے والوں کو جب تک ان کے آبائی علاقوں میں نہیں بھیجا جاتا وہ ان کیمپوں میں قیام کر سکیں۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ طورخم کی سرحد پر بھی مناسب پناہ گاہیں نہیں ہیں اور پینے کے پانی تک محدود رسائی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سردی سے بچاؤ کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔ مہاجرین کھلی فضا میں آگ جلا کر خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ روشنی وغیرہ کا بھی کوئی معقول بندوبست نہیں ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے اور امدادی گروپ ان ہزاروں لوگوں کے لیے سہولتیں فراہم کر رہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
امدادی تنظیم ورلڈ وژن انٹرنیشنل کی تھامُندری ڈا سلوا نے اس صورتِ حال کے حوالے سے بتایا کہ لوگ تھیلوں میں بھرے کپڑوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کی گھڑیاں، زیورات اور نقد رقوم پاکستانی سرحد پر ان سے لے لی جاتی ہیں۔
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک کہتے ہیں کہ واپس آنے والوں میں بہت سےا یسے افراد بھی ہیں جو اپنی تعلیمی اسناد کے بغیر واپس آ رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ وہ مقامی زبانیں دری اور پشتو سے بھی آگاہ نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے پاکستان میں اردو اور انگریزی میں تعلیم حاصل کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ خبردار کرتے ہیں کہ غربت کے سبب اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان میں نہ صرف بچوں سے مشقت لینے کا کام بڑھ جائے بلکہ بلکہ وہ اسمگلنگ جیسے کاموں میں بھی ملوث ہو جائیں گے کیوں کہ واپس آنے والے زیادہ تر خاندان وہ ہیں جن کا شمار پاکستان میں غریب ترین تارکینِ وطن میں ہوتا تھا۔
ادھر پوپ فرانسس نے اتوار کے روز ویٹیکن میں ان افغانوں کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا جنہوں نے پاکستان میں پناہ لی تھی لیکن اب نہیں جانتے کہ کہاں جائیں۔
اس تحریر میں مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔