پیر کی سہ پہر نیو یارک کی ایک عدالت میں جج رچرڈ برمن نے جیوری کو دو گھنٹے کی مفصل ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ امریکی نظام قانون کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک جیوری کے 12 کے 12ارکان متفقہ طور پر انہیں مجرم قرار نہ دے دیں۔
جیوری کے پینل کو یہ ہدایت بھی کی گئى ہے کہ جب تک وہ اس مقدمے کا فیصلہ نہیں کر لیتے، باہر کے کسی شخص، یہاں تک کہ خود جج سے بھی اس مقدمے کے بارے میں کوئی بات نہ کریں۔
البتہ وہ مقدمے میں پیش کی گئی شہادتوں اور گواہیوں کو دوبارہ دیکھنے یا سننے کی درخواست کر سکتے ہیں۔
اگر جیوری کے 12 ارکان متفقہ طور پر کسی فیصلے تک نہ پہنچ سکے تو مِس ٹرائل ہو جائے گا، یعنی ڈاکٹر صدیقی مجرم قرار نہیں دی جا سکیں گی، لیکن حکومت ان کے خلاف دوبارہ کارروائی کر سکے گی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صوبے غزنی میں جولائی 2008 میں ایک ایم فور رائفل سے امریکی اہلکاروں پر گولیاں چلائی تھیں۔ جس کے جواب میں ایک امریکی فوجی نے نو ملی میٹر کے پستول سے ان کے پیٹ میں گولی ماری تھی۔
گزشتہ ہفتے عدالت میں بیان دیتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی گولی نہیں چلائی تھی، بلکہ جب وہ افغان نیشنل پولیس کے ہیڈ کوارٹر کے ایک کمرے میں ٹنگے پردے کے پیچھے سے جھانک رہی تھیں تو ان پر گولیاں چلائی گئیں اور وہ زخمی ہو گئیں۔
استغاثہ نے جیوری سے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بری کرنے کے لیے انہیں یہ ماننا پڑے گا کہ وہ نو کے نو افراد جنہوں نے گواہی دی ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر صدیقی کو گولی چلاتے دیکھا تھا یا رائفل کی آواز سنی تھی، جھوٹ بول رہے ہیں۔
وکلاء صفائی نے جیوری کے پینل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سائنس جھوٹ نہیں بولتی اور اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ملا کہ جس کمرے میں ڈاکٹر صدیقی زیر حراست تھیں وہاں کسی ایم فور رائفل سے فائرنگ کی گئى تھی۔ یعنی نہ تو ایم فور کی چلی ہوئی گولیاں، نہ دیوار پر ایم فور کی گولیوں کے نشان اور نہ ہی کمرے میں ٹنگے پردے پر بارود کے ذرات مِلے۔
بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وکیل صفائی چارلز سوفٹ نے کہا کہ ”ایسا کیوں ہے کہ ایک نو ملی میٹر دہانے کے پستول سے فائرنگ کے تو کئی ثبوت ملے ہیں لیکن ایم فور رائفل کے فائر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ استغاثہ کے گواہوں کے پاس حقائق کو چھپانے کی وجہ ہے کیونکہ ”غیر مسلح ڈاکٹر صدیقی کو گولی مارنے پر ان سب کو نوکری سے نکالا جا سکتا تھا۔”
مسٹر سوفٹ کے مطابق اگر ضرورت پڑی تو اس مقدمے میں اپیل دائر کی جائے گی جس کے لیے پہلے ہی کئی قانونی نکات ان کے ذہن میں ہیں۔
اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں جیوری اپنی مرضی کےمطابق وقت لے سکتی ہے۔
امریکی نظام ِقانون کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی اُس وقت تک بے گناہ ہیں جب تک جیوری کے 12 کے 12 ارکان متفقہ طور پر انہیں مجرم قرار نہ دے دیں: جج رچرڈ برمن