"ہم نے اپنی بیٹی کی بارات اور بیٹے کے ولیمے میں پانچ سو مہمانوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ لیکن بارش کے سبب مشکل سے 100 افراد ہی شادی ہال پہنچے۔ شادی کی تقریب میں ہم جس طرح پریشان کھڑے تھے اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس کے گھر برسوں سے خوشی کا انتظار ہو اور اُس روز سب تباہ ہوجائے۔"
یہ کہنا تھا ملک کے سب سے بڑے شہر کے مکین 60 سالہ شہریار ملک کا، جن کے گھر کی خوشی ہفتے کو ہونے والی بارش کے نذر ہو گئی ہے۔
کراچی میں گزشتہ شب ہونے والی بارش کے بعد موسم تو سرد اور خوش گوار ہوا۔ لیکن عام شہریوں کو جس اذیت، کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے شاید ہی لفظوں میں بیان کیا جا سکے۔
میں کل دوپہر تین بجے سے شہر میں انتخابی مہم کی کوریج اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے باہر تھی کہ شام ہوتے ہی موسم تبدیل ہونے لگا جس کی پیش گوئی محکمۂ موسمیات پہلے ہی کر چکا تھا۔
کراچی میں یوں تو بارش ہوتی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو بس پھوار یا ہلکی پھلکی بارش کی ہی اطلاعات آتی ہیں۔ میں نے ایک اور جگہ جانے سے قبل کراچی پریس کلب میں رکنے کا ارادہ کیا۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے بارش اتنی تیز ہونے لگی کہ وہاں بیٹھے تمام صحافی جو پہلے بارش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے ان کے چہروں پر پریشانی نظر آنے لگی۔
ہمارے ساتھ بیٹھے اسلام آباد سے آئے صحافی علی فرقان کافی مطمئن نظر آئے شاید انہیں لگا کہ اسلام آباد کی طرح یہاں بھی بارش کے بعد موسم خوش گوار اور لوگوں کے دلوں کا حال اچھا ہو جاتا ہے۔ لیکن جب ہم نے انہیں فون پر آنے والی شہر کی ابتر صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انہیں بھی اندازہ ہو گیا کہ ہر شہر کی قسمت شہرِ اقتدار جیسی نہیں ہوتی۔
بارش تھمنے کے بعد ہمیں مزید کچھ گھنٹے اس لیے رکنا پڑا کہ سڑکوں پر کھڑا پانی کچھ اترے تو ہم گھر کی راہ لیں۔ لیکن رات کو ساڑھے 12 بجے جب ہم نے اپنے ساتھی رپورٹر کو ان کے ہوٹل ڈراپ کیا تو تین منٹ کا سفر آدھے گھنٹے میں تبدیل ہوچکا تھا۔
پریس کلب سے گورنر ہاؤس اور میٹروپول کا حال دیکھ کر ذہن بن چکا تھا کہ اب گھر جانا ممکن نہیں سو میں نے رات ایک ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کیا جہاں مجھ جیسے کئی بے بس لوگ استقبالیہ پر اسٹاف سے رات گزارنے کے لیے کمرہ حاصل کرنے کی بحث میں مصروف تھے۔ یوں اپنے ہی شہر میں گھر ہوتے ہوئے مجھے مسافر بن کر رہنا پڑا۔
یہ صرف میری کہانی نہیں مجھ جیسے ہزاروں لوگ ہفتے کو اس شہر میں چند گھنٹے کی بارش کے بعد خوار ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایئر پورٹ کے علاقے کی رہائشی ماہ نور کے مطابق انہیں بھی اپنی گاڑی سڑک پر چھوڑ کر گھر جانا پڑا۔
ان کے بقول "میں اور میرا بھائی گاڑی میں تھے اور پانی اتنا زیادہ تھا کہ وہ ہماری کار کے بونٹ تک آ رہا تھا اور اگر برابر سے کوئی بڑی گاڑی گزرتی تو پانی شیشے سے اندر آجاتا۔ میرے ٹخنے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور پھر مجھے اپنی بند گاڑی شاہراہِ فیصل پر چھوڑ کر گھر آنا پڑا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سڑک پر گھٹنوں تک پانی کھڑا تھا۔
ان کے مطابق وہ تو اپنے بھائی کے ساتھ تھیں۔ لیکن انہوں نے کئی لڑکیوں کو سڑک پر تنہا دیکھا جنہیں نہ تو سواری مل رہی تھی اور نہ ہی کوئی لفٹ دینے والا تھا۔
ان کے بقول اس شہر کا کوئی حال نہیں ہے۔
کلثوم جہاں آئی آئی چندریگر روڈ پر اپنے دفتر کی جانب سے ملنے والی ڈراپ سروس سے اورنگی ٹاؤن اپنے گھر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچیں۔ اسی طرح آمنہ علی کو گھر کے بجائے راستے میں اپنے رشتے داروں کے گھر رکنا پڑا۔
محمد سیف کے مطابق وہ اپنی خراب بائیک کو پیدل گھسیٹتے ہوئے دو گھنٹے میں گھر پہنچے اور اس دوران وہ دو بار گڑھے میں بھی گرے۔ انہیں سب سے زیادہ خوف بجلی کی تاروں کا تھا جو اکثر بارشوں میں ٹوٹ کر پانی میں گر جاتی ہیں اور پھر جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔
شہر میں بارش ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر کراچی کی شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھتے نظر آئے۔
کسی نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ الیکشن سے قبل ہونے والی بارش نے ووٹرز کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ووٹ کسے دینا ہے۔
ایک صارف نے یہ بھی لکھا کہ کراچی والوں کے پاس بارش کو انجوائے کرنے کی نہیں ڈوبتی گاڑیوں کو بے بسی سے دیکھنے کی تصاویر ہی رہ جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر کوئی اسپتال میں پانی بھر جانے کی ویڈیوز شیئر کر رہا تھا تو کوئی کشتیوں کی طرح تیرتی گاڑیوں کی تصاویر پوسٹ کر رہا تھا۔
شہر کی ہر شاہراہیں جو تیز بارش کے سبب زیرِ آب تھی وہیں منٹوں کا سفر کرنے والوں نے گھنٹوں سڑکوں پر گزارے۔
کئی مریض ایمبولینسوں میں زحمت کے سبب اسپتال تاخیر سے پہنچے تو دفاتر سے نکلنے والوں سے آن لائن ٹیکسی سروسز نے منہ مانگے دام وصول کیے۔
کئی پلوں کے نیچے مرد بے بسی سے بائیک بند کیے بارش کے رکنے کا انتظار کرتے بھی دکھائی دیے تو بازاروں میں موجود خواتین اور بچے بھی سواری حاصل کرنے کے لیے خوار ہوکر رہ گئے۔ گویا بارش نے تو شہر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
سوشل میڈیا پر جہاں کراچی اور کراچی رین ٹرینڈ کر رہا تھا وہیں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب بھی سوشل میڈیا اور سڑکوں پر متحرک دکھائے دیے اور یہ پوسٹ کرتے نظر آئے کہ کون سا نالہ اب کام کر رہا ہے اور پانی کی نکاسی شروع ہو چکی ہے۔
محکمۂ موسمیات نے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران شہر میں گرج چمک کے ساتھ مزید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز کراچی کے 90 فی صد علاقوں میں تیز بارش ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ دو فروری کو ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہونے والے بارش برسانے والے سسٹم نے کیچ اور تربت کے علاقوں میں تیز بارشیں برسائیں۔ یہی سسٹم سندھ میں داخل ہوا ہے جس کے نتیجے میں کراچی سمیت جیکب آباد، لاڑکانہ، سکھر، حیدرآباد، میرپورخاص، کشمور میں بھی بارشیں ہوئیں۔
سردار سرفراز کے مطابق یہ اسپیل پانچ فروری تک جاری رہنے کا امکان ہے جب کہ اس کا اثر اب بلوچستان میں ختم ہو چکا ہے۔ تاہم یہ سسٹم شمال میں جاری رہے گا جس کے سبب پنجاب، خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں پیر کی صبح یا دوپہر تک بارشیں متوقع ہیں۔
ایک مشکل رات جو گزر ہی گئی
رات بھر اس پریشانی میں گزری کہ نہ جانے گھر میں اور گھر پہنچنے والے راستوں کا کیا حال ہوگا؟
اس لیے صبح سویرے اٹھتے ہی ہوٹل سے چیک آؤٹ کیا اور پھر اپنے ساتھی رپورٹرز کو لے کر شاہراہ فیصل سے عزیز آباد کی جانب روانہ ہو گئی۔
شاہراہ فیصل جو رات کو ایک ندی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ اب بالکل صاف تھی لیکن لیاقت آباد میں داخل ہوتے ہی ایک بار پھر سے تیز بارش نے ہمارا استقبال کیا۔
اس سفر کے دوران سڑکوں کے اطراف میں کئی بند گاڑیاں دکھائی دیں۔ جو یقیناً رات سے یہاں کھڑی تھیں۔ کئی سڑکیں اب بھی زیرِ آب تھیں اور کئی جگہ سے نکاسی کے بعد سڑک پر جم جانے والا پلاسٹک اور کچرا اپنے نشان چھوڑے ہوئے تھا۔
صبح سویرے حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے اور موسم کو انجوائے کرنے کی شوقین عوام دوبارہ ہونے والی بارش سے بچنے کے لیے محفوظ جگہیں تلاش کر رہے تھے۔ تو بہت سی جگہوں پر لگے سیاسی بینرز جو شہر پر اختیار اور اقتدار کے دعوؤں سے بھرے نظر آرہے تھے وہ اس وقت کسی طنز جیسے محسوس ہو رہے تھے۔
گھر پہنچتے وقت میں یہی سوچ رہی تھی کہ واقعی کراچی میں رہنے والوں کی قسمت ان شہریوں جیسی نہیں جو بارش کے بعد سہانے موسم، گرم چائے کے کپ اور رومانوی اشعار کے ساتھ سوشل میڈیا بھر سکیں۔
ان کی قسمت میں تو بارش کے بعد محفوظ مقام تلاش کرنا، خراب گاڑیوں کے لیے مکینک ڈھونڈنا اور بند فون کے لیے چارجر کا بندوبست کرنا رہ گیا ہے جن لوگوں نے رات باہر گزاری اور مصائب کا سامنا کیا انہیں اب جب بھی بارش ہو گی تین فروری کی رات یاد آئے گی۔
اب جب الیکشن قریب ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں عوام کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، کیا وہ اقتدار میں آنے کے بعد اس شہر کی تقدیر بدل پائیں گے؟ یہ سوال تو اب اس شہر میں رہنے والے ہر شہری کا ہے لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔