بھارت میں ریاستی انتخابات: اترپردیش میں مذہب کے نام پر سیاست کی شکایات

متھرا میں مسجد اور مندر ساتھ ساتھ واقع ہیں، تاہم ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ ساری جگہ مندر کی ہے۔

بھارت کی بعض ریاستوں میں 10 فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں جن میں کامیابی کے لیے جہاں حکومتی اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں وہیں مذہب کے نام پر سیاست کی شکایات بھی عام ہیں۔

بھارت کی پانچ ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں 10 فروری سے سات مارچ تک مختلف مرحلوں میں ریاستی انتخابات کے لیے پولنگ ہو گی۔

بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بھی انتخابات سے قبل متھرا میں شاہی عید گاہ مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اسی ریاست کے وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ نے گزشتہ برس گوشت کی تجارت پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

مسلمان دکان داروں کو گلہ ہے کہ قوم پرست ہندو رہنما ادتیہ ناتھ کے ان اقدامات سے اُن کا کاروبار تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔

خبر رساں ادارے "رائٹرز' کے مطابق اترپردیش کے وزیرِ اعلٰی نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کی جگہ مندر کو دینے کے مشن کی قیادت کریں گے۔

ایودھیا کی بابری مسجد اور بنارس میں واقع کاشی وشو ناتھ مندر سے متصل گیان واپی مسجد کی طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ اور کرشنا مندر تنازع بھی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔

مندر اور مسجد کے باہر سیکیورٹی کے بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔

ہندوؤں کا ماننا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد مندر کی جگہ پر بنی ہے، لہذٰا اسے مکمل طور پر دوبارہ مندر میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس وقت 1968 میں طے پانے والے ایک تصفیے کے تحت مندر اور مسجد ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

یہ تنازع 20 کروڑ آبادی والی ریاست اترپردیش کی سیاست کا محور سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر حکمراں جماعت اس معاملے پر دو ٹوک مؤقف رکھتی ہے۔

انتخابات سے قبل متھرا مسجد، مندر تنازع ایک بار پھر موضوع بحث ہے جس کی وجہ سے ریاست کے مسلمان ووٹرز تشویش میں مبتلا ہیں۔

'مندر کارڈ کے نام پر سیاست ہو رہی ہے"

بھارت میں قوم پرست سیاست اور وزیرِ اعظم نریندر مودی پر لکھی گئی متعدد کتابوں کے مصنف نیلنجن موکھوپادیائے نے 'رائٹرز'کو بتایا کہ حکمراں جماعت انتخابات سے قبل مندر کارڈ کے استعمال پر زور دے رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک پرانا معاملہ جس پر تصفیہ ہو چکا ہے اسے ایک بار پھرزندہ کیا جا رہا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق معاشی صورتِ حال او رکرونا وبا سے متعلق حکمتِ عملی پر تحفظا ت کے باوجود اترپردیش کے ریاستی انتخابات میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو برتری حاصل ہے۔

اترپردیش کے وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ (فائل فوٹو)

وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ جنہیں بعض ماہرین وزیرِ اعظم مودی کا سیاسی جانشین بھی سمجھتے ہیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کی جماعت کو 80 فی صد ووٹرز کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ خیال رہے کہ ریاست میں 80 فی صد آبادی ہندوؤں جب کہ 20 فی صد مسلمانوں کی ہے۔

رائٹرز نے متھرا کی صورتِ حال پر وزیرِ اعلٰی کے دفتر سے رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بی جے پی نے اترپردیش میں 'ہندو فرسٹ' کا نعرہ لگایا تھا اور اسے یہاں سے بھاری اکثریت میں کامیابی ملی تھی اور یہاں اس نے کسی مسلمان اُمیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ اترپردیش سے بی جے پی کی کامیابی کو 2014 میں نریندر مودی کی جانب سے ہندو ووٹ بینک کو راغب کرنے کا ہی ایک تسلسل سمجھا تھا۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس بی جے پی کی 'ہندو فرسٹ' پالیسی کو ریاست میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک واضح تفریق پیدا کرنے کی کوشش سمجھتی ہے۔

البتہ وزیرِ اعظم ایسے الزامات کی تردید کرتے ہوئےکہہ چکے ہیں کہ اُن کا معاشی اور سماجی ایجنڈا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا بھارت میں مسلمانوں کے لیے فضا نا سازگار ہو رہی ہے؟

بی جے پی اقلیتی کمیشن کے سربراہ جمال صدیقی نے 'رائٹرز" کو بتایا کہ پارٹی ریاست اترپردیش سمیت دیگر چار ریاستوں میں فروری کے انتخابات کے لیے اقلیتی اُمیدواروں کو ٹکٹ دینے پر غور کر رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اُمیدوار نہ صرف انتخابات میں حصہ لیں گے بلکہ اُنہیں حکومت میں بھی شامل کیا جائے گا۔

جمال صدیقی کے بقول اپوزیشن جماعتیں اترپردیش کی سیاست میں بی جے پی سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے کی ناکام کوششیں کر رہی ہیں۔

مسلمان اور ہندو اپنے مؤقف پر قائم

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے 150 کلو میٹر دور متھرا شہر کو ہندو دیوتا کرشنا کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے۔

مغل دور میں سترہویں صدی کے دوران متھرا میں کرشنا کی جائے پیدائش کی جگہ پر قائم مندر کو گرا کر شاہی عیدگاہ نامی مسجد تعمیر کر دی گئی تھی۔ تاہم 1950 کی دہائی میں اس مسجد کےساتھ مندر دوبارہ تعمیر کر دیا گیا تھا جس کے بعد سے ہندو انتہا پسند تنظیموں نے مسجد کو مسمار کر کے مندر کو توسیع دینے کا مطالبہ کیا۔

سن 1968 میں ایک تصفیے کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ مندر اور مسجد ساتھ ساتھ ہی قائم رہیں گے، تاہم ہندو قوم پرست اب بھی اس جگہ کو مکمل طور پر مندر میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

البتہ وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ اس جگہ کو مندر میں تبدیل کرنے کی قانونی جنگ جاری رکھیں گے اور ایودھیا میں بابری مسجد کی طرح اس جگہ پر بھی بڑا مندر بنے گا۔

SEE ALSO: ٹیپو سلطان ہیرو یا ولن؟ بھارت میں ایک بار پھر بحث

اس تحریک کو اس وقت ہوا ملی جب 2019 میں بھارتی عدالت نے ایودھیا میں ہندوؤں کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر بنانے کی اجازت دے دی تھی۔ دسمبر میں ہندوؤں کے ایک گروپ نے عیدہ گاہ مسجد میں ہندو دیوتا کرشنا کی مورتی رکھنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد حالات کشیدہ ہونے پر ہزاروں سیکیورٹی اہل کاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

وزیرِ اعلٰی یوگی ادتیہ ناتھ نے گزشتہ برس ستمبر میں ایک متنازع حکم دیا تھا جس کے تحت مسلمانوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ مندر کے تین کلو میٹر کے احاطے میں گوشت کی دکان نہیں کھول سکتے اور نہ ہی ہوٹلز میں اس کی فروخت کی اجازت ہو گی۔اس اقدام سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور مسلمان دکان داروں نے اس اقدام کو اُن کا معاشی استحصال قرار دیا تھا۔

عیدگاہ مسجد کو چلانے والے ٹرسٹ کے سربراہ ذیڈ حسن نے 'رائٹرز" کو بتایا کہ وہ گزشتہ 55 برس سے متھرا میں رہ رہے ہیں، اُنہوں نے کبھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔

متھرا کے رہائشی ہندو اور مسلمان بھی مسجد، مندر تنازع پر الگ مؤقف رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اس تنازع کی وجہ سے متھرا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کے واضح آثار نظر آتے ہیں جو لامحالہ انتخابات پر بھی اثرانداز ہوں گے۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لیا گیا ہے۔