چناب نگر: احمدی کمیونٹی کے باسٹھ سالہ شخص کا قتل، ملزم گرفتار

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے چناب نگر میں احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک 62 سالہ شخص کو خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ جمعے کو چناب نگر کے بس اڈے پر پیش آیا، جہاں نصیر احمد پر ایک 25 سے 30 سالہ شخص نے خنجر سے وار کیے جس کے بعد اُنہیں اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کو موقعے پر موجود افراد نے قابو کر کے پولیس کے حوالے کر دیا۔

جماعتِ احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے اپنی ٹویٹ میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نصیر احمد کو مذہبی انتہا پسند شخص نے بیدردی سے قتل کیا۔

سلیم الدین نے دعویٰ کیا کہ قاتل نے نصیر احمد کو تحریکِ لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی کے حق میں نعرہ لگانے کا کہا اور نصیر احمد کی جان لینے کے باوجود اپنی گرفتاری تک وہ نعرے بازی کرتا رہا۔



پولیس کے مطابق مقتول نصیر احمد کو قتل کرنے والے شخص کا تعلق ایک مذہبی سیاسی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ پولیس نے اِس شک کا اظہار کیا ہے کہ ممکنہ طور پر دونوں افراد کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد نصیر احمد کو قتل کر دیا گیا۔

چناب نگر کے ایس ایچ او کہتے ہیں کہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور واقعہ کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے چناب نگر کے ایس ایچ او طاہر منج نے کہا کہ مقتول کا پوسٹ مارٹم کرایا جا رہا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ پولیس اِس پہلو پر بھی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا دونوں افراد میں پرانی دشمنی تھی یا لین دین کا کوئی معاملہ تھا جب کہ واقعہ کا مقدمہ بھی جلد درج کر لیا جائے گا۔

خیال رہے چناب نگر جس کا پرانا نام ربوہ ہے۔ اُس کی اکثریت احمدیوں پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چناب نگر کی 95 فی صد آبادی احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔

جماعت احمدیہ کے مرکزی رہنما عامر محمود کہتے ہیں کہ ایک 25 سالہ شخص نے محض مذہبی بنیادوں پر ایک بزرگ کو قتل کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ قاتل کا تعلق چناب نگر سے نہیں ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قتل باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔

عامر محمود کے مطابق معاشرے میں احمدیوں کے خلاف جلسے جلوسوں میں نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں، اخبارات اور جرائد میں اُن کے خلاف مذہبی منافرت پھیلائی جاتی ہے۔

خیال رہے احمدی جماعت اور مذہبی سیاسی جماعت کے درمیان اختلافات کے باعث رواں سال یه قتل کادوسرا واقعہ ہے۔ اِسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ضلع اوکاڑہ میں دو ماہ قبل پیش آیا تھا۔ جس میں احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص عبدالسلام کو قتل کر دیا گیا تھا۔

انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی عالمی تنظیمیں پاکستان میں احمدیوں سمیت تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ حکومت اقلیتوں کے خلاف منافرت کو سختی سے روکے۔

ماضی میں اس نوعیت کے واقعات پر حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق اور تحفظ حاصل ہے۔ لہذٰا مذہب کے نام پر کسی کی جان لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔