کمپیوٹر انجنیئرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کئی برسوں سے خبردار کر رہے تھے کہ ایسے ایپس کی ارزاں دستیابی ، جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے فوری طور پر جعلی تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز بنا کر ووٹروں کو بے وقوف بنا سکیں اور انہیں دھوکہ دے سکیں،انتخابات پر اثرانداز ہونے کا خطرہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم اخراجات کے ساتھ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈیپ فیکس کے ذریعے سوشل میڈیا پر غلط ، جھوٹی اور گمراہ کن معلومات آسانی سے پھیلانا اب محض ایک دو سال کی بات لگتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے جدید ترین تخلیقی ایپ اب انسان جیسی آوازیں اور انتہائی حقیقیت پسندانہ تصویریں، ویڈیوز اور آڈیوز انتہائی قلیل وقت میں انتہائی سستے داموں تیار کر سکتے ہیں۔ چونکہ یہ ایپ جعلی ڈیجیٹل مواد کو سوشل میڈیا پر انتہائی تیزی سے پھیلانے اور مخصوص سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے یہ ممکنہ طور پر انتخابی مہم کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔
ماہرین یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے تخلیقی ایپ برق رفتاری سے 2024 کی انتخابی مہم کو ہدف بنانے والی ای میلز، الیکٹرانک پیغامات اور آڈیوز اور ویڈیوز بنا کر ووٹروں کو گمراہ کر سکتے ہیں جس میں امیدوار کی اصل جیسی نقلی آواز اور ویڈیو بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس کے پیش نظر انتخابی مہمات کو اس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔
SEE ALSO: مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تیزی سے متعارف کرواناانتہائی خطرناک ہے: بانی سائنسدانسائبر سیکیورٹی کی ایک کمپنی زیرو فاکس کے نائب صدر اے جے ناش کہتے ہیں کہ ابھی ہم اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب آپ بڑے پیمانے پر جعلی ڈیجیٹل مواد بنا سکیں اور اسے انتہائی تیری سے سوشل میڈیا پر پھیلا سکیں تو ظاہر ہے کہ اس کا اثر تو ہو گا ہی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے طاقت ور ایپ بہت کچھ اور ناقابل یقین کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کسی خاص شخص کی نقلی آواز میں ، جو بالکل اصلی لگتی ہو، پیغامات تیار کر کے مطلوبہ افراد تک پہنچا سکتے ہیں۔ مثلاً انتخاب میں حصہ لینے والے امیدوار کا نقلی پیغام ووٹروں تک پہنچ سکتا ہے۔ ووٹروں کو غلط تاریخ پر ووٹ ڈالنے کا کہہ سکتا ہے۔ امیدوار اپنی آڈیو ریکارڈنگ میں اپنے کسی جرم کا إقرار کر سکتا ہے، یا نسل پرستی پر مبنی خیالات کا اظہار کر سکتا ہے، یا اس کی کوئی ایسی ویڈیو فوٹیج سوشل میڈیا پر پھیلائی جا سکتی ہےجس میں اسے کوئی ایسا انٹرویو دیتے یا تقریر کرتے ہوئے دکھایا جا سکتا ہے یا امیدوار یہ اعلان کرتا ہوا دکھائی دے سکتا ہے کہ وہ الیکشن سے دستبراد ہو گیا ہے۔ جب کہ حقیقت میں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تھا اور اس مواد کو مصنوعی ذہانت کے تخلیقی ایپ کی مدد سے ووٹروں کو بدظن یا گمراہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو 2024 کے صدارتی اتنخاب میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں،اے آئی کے ذریعے تیار کردہ مواد کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے ، جس میں مصنوعی ذہانت کے ایک آڈیو ٹول کے استعمال کی مدد سے گزشتہ ہفتے سی این این ٹاؤن ہال میں ٹرمپ کے ساتھ سی این این کے میزبان اینڈرسن کوپر کے ردعمل کو مسخ کر کے پیش کیا گیا تھا۔
SEE ALSO: کیا چیٹ جی پی ٹی بوٹ سیاست کو نیا رخ دے سکتا ہے؟اسی طرح ری پبلیکن نیشنل کمیٹی کی طرف سے گزشتہ مہینے جاری کیا جانے والا اشتہار مستقبل کی ایک جھلک پیش کرتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے حقائق کو توڑ مروڑ کر کس انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ صدر جوبائیڈن کی جانب سے دوسری مدت کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد اس آن لائن اشتہار میں بائیڈن کی ایک عجیب اور قدرے بگڑی ہوئی تصویر کے ساتھ یہ عبارت درج ہے کہ ’’ اگر ہمارے پاس اب تک کا سب سے کمزور صدر دوبارہ منتخب ہو گیا تو کیا ہو گا‘‘۔
نیویارک سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایوان میں نمائندے ایویٹ کلارک کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ 2024 کے انتخابا ت سے پہلے ایسی ویڈیوز اور آڈیوز بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے تخلیقی ایپس کو استعمال کیا جا سکتا ہےجس سے تشدد بھڑکانے اور امریکیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے میں مدد مل سکے۔
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب لوگوں کو دھوکہ دینے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا کیونکہ ان کی زندگیاں بہت مصروف ہیں اور ان کے پاس حقائق کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے کافی وقت نہیں ہے۔
SEE ALSO: مصنوعی ذہانت کا محفوظ استعمال: صدر بائیڈن کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقاتکلارک کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم اس ٹیکنالوجی کو جاری رکھتے ہیں توہمیں اس کی نگرانی کرنی ہو گی۔
اب اس سلسلے میں قانون سازی کی جانب بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ نیویارک سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایوان میں نمائندے ایویٹ کلارک نے ایک بل متعارف کرایا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے ذریعے بنائے گئے ایسے انتخابی اشتہارات میں جن میں مصنوعی تصاویر شامل کی گئیں ہوں، واٹر مارک میں اس کی نشاندہی کی ضرورت ہو گی۔
(اس رپورٹ کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)