اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے لیے امداد کے لیے قرارداد کی منظوری کے ایک روز بعد امدادی سامان کے 70 ٹرک ہفتے کو جنوبی غزہ میں داخل ہوئے جب کہ دوسری جانب اسرائیلی فورسز نے غزہ کے مختلف علاقوں میں بمباری کی ہے۔
سات اکتوبر کے بعد شروع ہونے والی مہلک جنگ میں غزہ کی محصور پٹی کی تقریباً 23 لاکھ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے بے گھر ہونے سے عالمی امدادی اداروں کے مطابق لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی، خوراک کی کمی اور عدم تحفظ کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
جنگ کے تازہ ترین مرحلے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو جنوبی غزہ منتقل ہونے کا کہا تھا لیکن جب لوگ وہاں پہنچے تو اتنی بڑی تعداد کی پناہ کے لیے گنجائش ناکافی تھی۔
عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوکا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان اسی سطح پر جنگ جاری رہی اور خوراک کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو اگلے چھ ماہ میں غزہ کے مکینوں کو قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور دوسرے اداروں کی جمعرات کو جاری ایک رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی پر اس وقت ایک چوتھائی آبادی فاقہ کشی کا سامنا کر رہی ہے۔
SEE ALSO: غزہ میں تقریباً ہر شخص بھوکا ہے، اقوام متحدہعلاوہ ازیں، امدادی تنظیموں کے مطابق غزہ میں بمباری سے اسپتال بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایندھن اور ادویات کی کمی سے بہت سے مریضوں کا علاج نہیں ہو پارہا ۔ کچھ ہی اسپتال کام کر رہے ہیں جو مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔
سلامتی کونسل نے جمعے غزہ میں انسانی بنیادوں پر توقف اور امداد کی ترسیل پر کئی دنوں تک جاری رہنے والی سفارتی بات چیت کے بعد جمعے کو ہی ایک قرارداد منظور کی تھی۔
امریکہ کو قرارداد کے پہلے مسودوں پر اعتراض تھا جب کہ جمعے کو اس نے قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا تاکہ اس کی منظوری ممکن ہو سکے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ جس طرح سے اسرائیل غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کر رہا ہے اس سے فلسطینی علاقے کے اندر "امداد کی تقسیم میں بڑے پیمانے پر رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔"
انہوں نے اسرائیلی حکام سے فوری طور پر تجارتی سرگرمیوں سے پابندیاں ہٹانے کی اپیل بھی کی۔
SEE ALSO: سلامتی کونسل نے غزہ میں امداد کی ترسیل پرقرار داد منظور کر لیسیکریٹری جنرل نے کہا کہ، "غزہ میں شیلفس خالی ہیں، لوگوں کے بٹوے خالی ہیں۔ پیٹ خالی ہیں۔ پورے غزہ میں صرف ایک بیکری کام کر رہی ہے اور میں اسرائیلی حکام سے فوری طور پر تجارتی سرگرمیوں پر سے پابندیاں ہٹانے کی درخواست کرتا ہوں۔"
انتونیو گوتریس نے نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اپنی نقد گرانٹ بڑھانے کے لیے تیار ہے لیکن غزہ میں خریدنے کی اشیا کا فقدان ہے۔ لہٰذا ، ان حالات میں امدادی ضروریات پوری کرنے اور ان کے لیے بھیانک خواب کو ختم کرنے کا واحد راستہ "انسانی بنیادوں پر جنگ بندی ہے۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے جاری جنگ میں فلسطینیوں کے مطابق غزہ کی پٹی میں 20 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حیران کن حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ حماس کے جنگجوؤں نے 240 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جنہیں وہ غزہ لے گئے تھے۔
امداد اور یرغمالیوں کے بارے میں اسرائیل کا مؤقف
اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے غزہ کے لیے انسانی امداد کو بڑھانے کے لیے سلامتی کونسل کے ردِعمل پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ "اقوامِ متحدہ کی توجہ صرف غزہ کے لیے امداد کے طریقہ کار پر مرکوز کرنا غیر ضروری اور حقیقت سے منقطع ہے۔
ان کے بقول، اسرائیل پہلے ہی مطلوبہ پیمانے پر امداد کی ترسیل کی اجازت دے رہا ہے، اقوامِ متحدہ کو یرغمالیوں کے انسانی بحران پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
اس خبر کے لیے بعض معلومات 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔