امریکہ میں پیدائشی طور پر قوتِ مدافعت سے محروم 48 بچوں کا علاج 'ایڈز وائرس' یا 'جین تھیراپی' کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد ان بچوں میں قوت مدافعت پیدا ہو گئی ہے۔
سوئیر کمبائینڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم یعنی پیدائشی طور پر قوت مدافعت سے محروم ہونا، ایک ایسی بیماری میں جس سے بچے قدرتی طور پر جسم میں موجود قوت مدافعت سے محروم ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر بچے پیدائش کے ایک سے دو سال کے بعد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
لیکن امریکہ میں ایسے 50 بچوں پر 'جین تھیراپی' کے طریقۂ علاج کے استعمال سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق 50 میں سے دو کو چھوڑ کر باقی 48 بچوں میں جراثیم سے لڑنے کی قابلیت پیدا ہو گئی ہے۔
امریکہ کے 'یو سی ایل اے میٹل' چلڈرن اسپتال میں مذکورہ بیماری کے علاج کے لیے تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ڈونلڈ کوہن نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک دفعہ کے علاج سے سوئیر کمائنڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم کے شکار بچے صحت یاب ہوئے ہیں۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 50 میں سے جو دو بچے جین تھراپی کے ذریعے ٹھیک نہیں ہوئے ان کا بعد میں بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے کامیاب علاج کیا گیا ہے۔
یہ بیماری 70 کی دہائی میں 'ببل بوائے' کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ کیوں کہ امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک لڑکا 12 برس تک محض اس لیے زندہ رہا کیوں کہ اسے جراثیم سے بچانے کے لیے پلاسٹک کے ببل میں قید رکھا گیا تھا۔
اب یہ بیماری 'ببل بے بی' کے نام سے جانی جاتی ہے۔ انسانی جین میں 20 سے زائد خرابیوں کے باعث یہ بیماری لڑکوں اور لڑکیوں کو لاحق ہو سکتی ہے۔
عمومی طور پر اس بیماری کا علاج 'بون میرو' ٹرانسپلانٹ سے کیا جاتا ہے جس میں جینیاتی طور پر موافق بھائی یا بہن کا بون میرو استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہ علاج بہت خطرناک بھی ہے۔
مذکورہ بیماری کے شکار بہت سے بچے موافق ڈونر نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ٹیکساس میں ببل بوائے کے نام سے مشہور ہونے والا لڑکا بھی پہلے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد ہلاک ہو گیا تھا۔
SEE ALSO: پالتو کتے کے ساتھ بچپن گزارنے والوں میں شیزوفرینیا کا خطرہ کم ہوتا ہےڈاکٹرز 'سوئیر کمبائینڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم' کے شکار بچوں کو اینٹی بائیوٹکس یا جراثیم سے لڑنے والے اینٹی باڈیز دیتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق یہ طویل مدتی حل نہیں ہوتا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت یہ نہیں جانتے کہ یہ طریقۂ علاج لمبے عرصے کے لیے مفید ہوگا یا نہیں، لیکن بقول ان کے ابھی تک یہ بچے بالکل صحت یاب ہیں۔
اس طریقۂ علاج میں مریض کے کچھ خون کے خلیے نکال کر ان میں ایڈز کے ناکارہ وائرس کو ڈالا جاتا ہے جس سے ایک صحت مند مطلوبہ جین مل سکتی ہے اور پھر ان خون کے خلیوں کو واپس مریض کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔
امریکی شہر لاس ویگاس میں رہنے والی 11 برس کی جوسلین کش جب تین برس کی تھیں تو انہیں 'یو سی ایل اے' میں جین تھیراپی کے طریقۂ علاج سے گزارا گیا۔
جوسلین جب کم سن تھیں تو انہیں مسلسل بیماریوں کا سامنا رہتا تھا۔ ان کی والدہ کم کارٹر کے بقول انہیں ڈے کیئر سے ہفتے میں دو بار بلایا جاتا تھا کہ ان کی بیٹی شدید بیمار ہے لیکن جب سے 'جین تھیراپی' جوسلین کو ملی ہے تو وہ شاز و نادر ہی بیمار ہوتی ہیں۔
کم کارٹر کہتی ہیں ان کے مطابق وہ جب بھی بیمار ہوتی ہیں تو صحتیاب ہونے میں کامیاب رہی ہیں۔
امریکی شہر میمفس میں سینٹ جیوڈ چلڈرن ریسرچ اسپتال کے ڈاکٹر اسٹیفن، جن کا اس تحقیق سے براہِ راست تعلق نہیں لیکن ان کے کئی ساتھیوں نے 17 بچوں پر یہ طریقۂ علاج استعمال کیا ہے، کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ یہ طریقۂ علاج کئی مختلف اسپتالوں میں استعمال کیا گیا اور سب میں ہی اسے محفوظ طریقے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
ان کے بقول ’’لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ علاج ہے؟ ہم طویل مدت کا تو نہیں جانتے، لیکن ابھی تک کم از کم تین برس تک تو یہ بچے بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔