وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ امریکہ اس امکان کی تیاری کر رہا ہےکہ کرونا ویکسین دینے کے 9 سے 12 ماہ کے دوران لوگوں کو ویکسین کی ایک تیسری خوراک دی جائے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے کرونا وائرس ریسپانس ٹاسک فورس کے چیف سائنس آفیسر ڈیوڈ کیسلر نے کانگریس کی کمیٹی کے روبر شہادت کے دوران بتایا کہ سائنسدان اس وقت یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ ویکسین کی مکمل خوراک لینے کے کتنے عرصے کے بعد جسم میں کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے مدافعت باقی رہے گی اور کب ویکسین کی مزید خوراک کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت یہ خیال ہے کہ جو لوگ کسی جسمانی عارضے کی وجہ سے کرونا وائرس کے خلاف کم قوت مدافعت کے حامل ہیں، انہیں یہ خوراک پہلے دی جائے گی۔‘‘
دوسری طرف نشریاتی ادارے سی این بی سی نے رپورٹ کیا ہے کہ فائیزر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر البرٹ بورلا نے کہا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ 12 مہینوں کے اندر لوگوں کو ویکسین کی تیسری خوراک دی جائے گی۔
ابتدائی ڈیٹا کے مطابق فائزر اور موڈرنا کی ویکسینز کم از کم چھ مہینے تک وائرس کے خلاف مدافعت رکھتی ہیں۔ اس سے زیادہ کتنے عرصے تک یہ مدافعت موثر رہے گی، اس پر تحقیق جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مدافعت چھ مہینے سے زیادہ موثر رہتی بھی ہے، تو تیزی سے پھیلنے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام، اور ان اقسام کی وجہ سے جن کے مستقبل میں نمودار ہونے کا امکان ہے، سالانہ فلو شاٹس کی طرز پر کرونا وائرس ویکسین کی خوراک بھی دینی پڑ سکتی ہے۔
دوسری طرف خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق دنیا میں کرونا وائرس کی سب سے زیادہ ویکسین بنانے والی بھارتی کمپنی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے سی ای او آدر پونا والہ نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کہا ہے کہ وہ ویکسین کی خوراک بنانے کے لیے ضروری خام مال کی برآمد سے پابندی ہٹائیں۔
بھارت میں ویکسین بنانے والی کمپنیوں اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ امریکہ میں ویکسین کی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکی قانون ڈیفنس پروڈکشن ایکٹ کی وجہ سے ویکسین بنانے کے لیے اہم خام مال کی برآمد پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ اس وجہ سے دنیا بھر میں ویکسین کی پیداوار پر اثر پڑ رہا ہے۔
موڈرنا کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سٹیفنی بینسل نے جمعرات کے روز ایک آن لائین تقریب کے دوران کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ملک کے اندر ویکسین کی تیاری میں تیزی لانے کے لئے ویکسین کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر برآمدی پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کی وجہ سے امریکہ میں ویکسین بنانے والی کمپنیاں بھی ویکسین برآمد نہیں کر پارہی ہیں اور دنیا بھر میں ویکسین کی قلت دور نہیں ہو رہی۔
آدر پونا والا نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ اگر ہم نے اس وائرس کے خلاف مل کر لڑنا ہے، تو امریکہ کے باہر ویکسین کی انڈسٹری کے نمائندے کے طور پر میری درخواست ہے کہ امریکہ خام مال کی برآمد سے پابندی ہٹائے تاکہ ویکسین کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔
واضح رہے کہ دس ڈیموکریٹ سینیٹرز نے بھی صدر بائیڈن سے کہا ہے کہ وہ بھارت اور جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی ادارہ برائے تجارت سے کی گئی اس اپیل کا ساتھ دیں کہ ادارہ عارضی طور پر انٹلیکچوئیل پراپرٹیضابطوں کو نرم کرے تاکہ وہ ممالک جو اپنے شہریوں کو ویکسین مہیا کرنے میں مشکل کا شکار ہیں، ان کے لئے آسانی پیدا ہو سکے۔