ترکیہ کے ایک غار میں پھنسے ایک امریکی محقق کو بچانے کے لیے یورپ بھر کے امدادی کارکن کوششیں کر رہے ہیں ۔ غاروں پر ریسرچ کے ایک ماہر 40 سالہ مارک ڈکی ترکیہ کے ایک غار میں ایک ریسرچ کے دوران معدے میں بلیڈنگ میں مبتلا ہونے کے بعد غار کے داخلی راستے سے تقریباً ایک ہزار میٹر نیچے پھنس کر رہ گئے ہیں۔
مارک ڈکی نیو جرسی میں قائم غار وں میں پھنسے لوگوں کو بچانےسے متعلق ایک ریسکیو گروپ سے منسلک ہیں۔ ان کے بارے میں ، یورپی ایسو سی ایشن آف کیو ریسکیؤرز نے بتایا ہے کہ وہ تین دوسرے امریکیوں سمیت چند دوسرے ماہرین کے ساتھ جنوبی ترکی کے ٹورس پہاڑوں کے مورکا غار میں تحقیق پر گئے تھے ۔ اس دوران وہ بیمار ہو گئے اور ان کے لیے غار سے نکلنا ممکن نہیں رہا۔ یہ غارسسٹم ایک ہزار 276 میٹر گہرا ہے ۔
اگرچہ امدادی کارکن ان کے پاس پہنچ چکے ہیں جن میں ہنگری کے ایک ڈاکٹر شامل ہیں جو ان کا علاج کر رہے ہیں تاہم انہیں ایک ہزار 276 میٹر گہرے غا ر سسٹم سے باہر لانے میں کچھ دن یا ممکن ہے کئی ہفتے لگیں کیوں کہ غار کئی مقامات پر اتنا تنگ ہے کہ وہاں سے اسٹریچر نہیں گزارا جا سکتا ۔
ڈکی نےغار کے اندر سے ایک ویڈیو پیغام میں غار سے متعلق کمیونٹی اور ترک حکومت کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ویڈیو ترکی کے کمیونی کیشنز ڈائریکٹوریٹ نے جمعرات کو فراہم کی ۔
ڈکی نے کہا کہ ،”غار کی دنیا واقعی ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑا ایک گروپ ہے اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ غار سے باہر کتنے زیادہ لوگوں نے ریسپانڈ کیا ہے ۔میں جانتا ہوں کہ ترکیہ حکومت نے مجھ تک میری ضرورت کی طبی امداد تیزی سے پہنچانے کی جو کوشش کی اسی نے میری زندگی بچائی ہے ۔ میں دم توڑنے ہی والا تھا۔”
ڈکی نے ، جو ویڈیو میں کھڑے اور چلتے پھرتے دکھائی دیے ہیں ، کہا کہ اگرچہ وہ الرٹ ہیں اور بات چیت کر رہے ہیں لیکن وہ اندرونی طور پر صحت مند نہیں ہیں اور انہیں کسی اسٹریچر پر یا خود اپنی طاقت کے بل پر غار سے نکلنے میں بہت زیادہ مدد کی ضرورت ہو گی ۔ ڈاکٹرز یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا انہیں کسی اسٹریچر پر غار سے باہر لایا جائے گا یا وہ خود ہی چل کر وہاں سے باہر آسکیں گے۔
نیو جرسی میں قائم غار وں سے متعلق جس امدادی گروپ ے ساتھ ڈکی منسلک ہیں اس نے بتایا ہے کہ ڈکی ،جن کے معدے سے خون بہہ رہا تھا اور معدے کا فلوئڈ ختم ہو رہا تھا، ان کی الٹیاں اب رک گئی ہیں اور انہوں نے کئی دن بعد پہلی بار کچھ کھایا ہے ۔ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ انہیں یہ طبی مسئلہ کیوں لاحق ہوا۔
نیو جرسی کی ابتدائی مددگار ٹیم نے کہا ہے کہ انہیں باہر لانے کےلیے کئی ٹیموں اور مستقل طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہو گی ۔ گروپ نے کہا ہے کہ غار کافی سرد بھی ہے وہاں درجہ حرارت تقریباً چار سے چھ ڈگری سیلسئس ہے۔
ڈکی سے رابطہ کرنے میں پانچ سے سات گھنٹے لگتے ہیں اور اس کے لیے کارکن دوڑتے ہوئے پہلے ڈکی تک جاتے ہیں ان سے بات کرتے ہیں اور پھر غار میں بنائے گئے اس کیمپ تک جاتے ہیں جہاں ایک ٹیلی فون لائن نصب کی گئی ہے تا کہ غار سے باہر کے لوگوں سے بات کی جاسکے ۔
ماہرین نے کہا ہے کہ ڈکی کو کامیابی سے باہر نکالنا ایک چیلنج ہوگا۔ ترکیہ کی غاروں پر ریسرچ کی فیڈریشن ، سپیولوجیکل فیڈریشن آف ترکیہ کے یوسف اورمیچک نے کہا ہے کہ غار میں کسی بھی امدادی کارروائی کے دوران سب سے مشکل کام یہ ہے کہ غار کے تنگ راستوں کو اتنا کھلا کیا جائے کہ اسٹریچر وہاں سے باآسانی گزر سکے ۔
انہوں نے کہا کہ اسٹریچر کو لے کر چلنے میں بہت زیادہ جسمانی محنت اور غار میں طویل گھنٹوں تک کام کرنے والے تجربہ کار امدادی کارکن درکا ر ہوتے ہیں۔ اورمیچک نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کم درجہ حرارت میں کیچڑ اور پانی سے گزرنا، پھر غار کے اندر لمبے دورانیوں تک رہنےکامشکل نفسیاتی مسئلہ اور اسی طرح بہت سے مسائل د رپیش ہوسکتے ہیں۔
اورمیچک نے بتایا کہ اس وقت 170 لوگ امدادی کوششوں میں شامل ہیں جن میں ڈاکٹر اور پیرا میڈکس بھی ہیں جو ڈکی اور غاروں کے تجربہ کار ماہرین کی طبی دیکھ بھال کرر ہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریسکیو آپریشن میں دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
اس کارروائی میں بلغاریہ ، کرو شیا، ہنگری ، اٹلی ، پولینڈ اور ترکیہ کی ریسکیو ٹیمیں شامل ہیں۔
ہنگری کی غار ریسکیو سروس کے مارٹن کوواکس نے کہا ہے کہ ڈکی کو بحفاظت نکالنے کے لیے غار کو تیار کیا جارہا ہے ۔راستوں کو چوڑا کیا جارہا ہے اور پتھروں کے گرنے کے مسئلےسے بھی نمٹا جارہا ہے۔
غاروں میں امدادی کارروائیوں سے متعلق یورپی تنظیم ، یورپین کیو ریسکیو ایسو سی ایشن نے کہا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق ترکیہ کی ریلیف ایجنسی ، اے ایف اے ڈی اور نیشنل میڈیکل ریسکیو ٹیم ترکیہ اور غاروں کے بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ مل کر ڈکی کو غار کے سسٹم سے نکالنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں ۔
ڈکی کے بارے میں یورپین کیو ریسکیو ایسو سی ایشن ے بتایا ہے کہ وہ غار وں کے ایک انتہائی تربیت یافتہ محقق اور غار میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے ایک ماہر کارکن اور غاروں پر ریسرچ سے متعلق بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ اپنی شمولیت کی وجہ سے غاروں کے ایک معروف ریسرچر یا اسپیلیوجسٹ ہیں ۔ وہ ایسو سی ایشن کی میڈیکل کمیٹی کے سیکرٹری ہیں ۔
اورمیچک نے بتایا کہ ڈکی اناطولیہ کی اسپیلیوجی گروپ ایسو سی ایشن کے لیے ایک ہزار 276 میٹر گہرے مورکا غار سسٹم پر ایک ریسرچ کا خاکہ تیار کررہے تھے جب وہ ایک ہزار میٹر نیچے تکلیف میں مبتلا ہو گئے ۔ وہ ابتدا میں ہفتے کو بیمار ہوئے تھے لیکن اتوار کی صبح تک یہ اطلاع غار سے باہر تک پہنچائی جا سکی ۔
اٹلی کی نیشنل الپائن اینڈ اسپیولوجیکل ریسکیو ٹیم غار تک پہنچ چکی ہے اور جمعے کو 50 امدادی کارکن ترک حکام کی ہدایت میں ہونے والی ایک کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں ۔
ڈیلس،ٹکساس کے قریب ایک 28سالہ فائر فائٹر جسٹن ہینلی نے بتایا کہ وہ چند ماہ قبل ڈکی سے اس وقت ملے تھے جب انہوں نے ہنگری اور کروشیا میں ڈکی کے سکھائے گئے ایک ریسکیو کورس میں شرکت کی تھی ْ انہوں نے ڈکی کو ایک پر جوش شخص قرار دیا جو ہر ایک میں اچھائی دیکھتا ہے ۔
ریسکیو ٹیموں کو امید ہے کہ وہ ہفتے یا اتوار کو کھدائی کا کام شروع کر دیں گی۔ کوواکس نے کہا کہ ڈکی کو باہر لانے میں کئی دن لگیں گے اور یہ کہ راستے میں کئی ایسےپوائنٹس تیار کیے جارہے ہیں جہاں ریسکیو ٹیمیں آرام کر سکیں ۔
یہ غار کئی حصوں میں تقسیم ہے اور ہر ملک کی ریسکیو ٹیم کو کسی ایک حصے کا ذمہ دار مقرر کیا جارہا ہے ۔ غار وں میں امدادی کارروائیوں سے متعلق ہنگری کا ادارہ ، ہنگرین کیو ریسکیو سروس جو رضاکار امدادی کارکنوں پر مشتمل ایک تنظیم ہے ، سب سے پہلے ڈکی تک پہنچی تھی اور اس نے اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے اسے ہنگامی طور پر خون فراہم کیا تھا۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)