"جو نادر مشورے مجھے آج تک ملے ہیں ان میں سر فہرست یہی ہے کہ چھوٹے بال مردوں کو پسند نہیں اس لیے تم ان کو لمبے کر لو ورنہ تمہاری شادی کیسے ہو گی؟ ممکن ہے تمہارے ہونے والے شوہر کو لمبے بال پسند ہوں". اگر آپ خاتون ہیں اور آپ کے بال بہت چھوٹے ہیں تو ممکن ہے آپ کو بھی ایسے ہی مشورے دیے جاتے ہوں جیسے سبین آغا کو ملتے ہیں۔
برصغیر میں خواتین کے بالوں کی لمبائی یا تراش اور نسوانیت کے درمیان ایک عجیب سا تعلق پایا جاتا ہے ۔
خواتین کی خوبصورتی کا ذکر آتے ہی جنوبی ایشائی ممالک میں لمبے بالوں ک کو حسن کی علامت سمجھا جاتاہے۔ خصوصاً شاعری خواتین کے ذکر کے ساتھ یہ حوالے جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی کسی بھی عورت کو خوبصورت محسوس کرنے اور نظر آنے کے لیے صدیوں سے چلے آ رہے ان تصورات میں خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا سادہ تو نہیں لیکن ایسی خواتین جو بال روایتی تراش خراش کے معیار سے ہٹ کر رکھنا پسند کرتی ہیں اسے ذاتی انتخاب کا مسئلہ سمجھتی ہیں نہ کہ خوبصورتی کی دلیل۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس ہفتے ’ع مطابق‘ میں ہم نے اسی کو موضوع بنایا۔ یہ رپورٹ آپ اوپر دیے گئے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
سارہ بلال ایک وکیل ہیں۔ انہوں نے ’ع مطابق‘ میں بتایا کہ وہ بہت کم عمری سے ہی چھوٹے بال رکھتی آئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے بال اسی طرح پسند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں ہمیشہ ہی دوسروں سے الگ دکھائی دینا پسند رہا ہے اور اپنے چھوٹے بالوں کی وجہ سے وہ سینکڑوں کے مجمع میں بھی نمایاں نطر آتی ہیں ۔
سارہ کہتی ہیں کہ " کئی بار کمرہ عدالت میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے تھے۔ میرے چھوٹے بالوں کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شاید میں بھی کوئی مرد ہوں"۔
سبین آغا ایک صحافی اور ڈاکیومینٹری میکر ہیں اور سارہ کی اس بات سے متفق ہیں کہ کوئی بھی فیشن یا حلیہ اپنانے پر تنقید کرنے والے اس کے بنیادی نکتے کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔ سبین کے مطابق وہ بنیادی پہلو یہ ہے کہ بالوں کی جو بھی وضع قطع ہے وہ اس سے رکھنے والے کی پسند کی عکاس ہوتی ہے۔
سبین آغا کا کہنا ہے کہ پاکستانی یا جنوبی ایشائی معاشروں میں صنف کی بنیاد پر لکیریں کھینچ دی گئی ہیں کہ مرد یہ کر سکتا ہے اور عورت کو ایسا کرنا یانظر آنا چاہیے ۔ ان کے مطابق اس سے ہٹ کر مرد بھی کچھ کرنا چاہیں تو ان کا بھی تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ لیکن یہ تفریق یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات مختلف معاشرتی رواجوں جیسے کے شادی بیاہ کے معاملات پر بھی اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔یعنی فرد کی پسند اور خصوصاً عورت کی مرضی کو دیگر معاملات میں بھی اکثر کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔
لیکن،سبین آغا کے بقول، ان کے لیے چھوٹے بال رکھنا ایک طرح سے معاشرتی قید سے بغاوت ہے اور اسی لیے انہیں یہ اسٹائل زیادہ پسند بھی ہے ۔
ہما اعجاز ایک کسنلٹنسی فرم کی مالک ہونے کے ساتھ ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر بھی ہیں۔ ان کی کہانی سارہ اور سبین سے تھوڑی مختلف ہے لیکن سماج کی اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کا تذکرہ یہ دونوں خواتین کر چکی ہیں ۔ ان کے بال لمبے تو ضرور ہیں لیکن وہ یہ بال ایسے رکھنا نہیں چاہتی تھیں ۔
ہما کے بقول، بچپن میں ان کے بال چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ تعلیم کے دوران وہ چھوٹے بال رکھنا چاہتی تھیں لیکن گھروالوں اور دوستوں کی مرضی کومدنظر رکھتے ہوے وہ ایسا نہیں کر سکیں۔
ہما بتاتی ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ اپنے ہیئر اسٹائلز بدلتی رہی ہیں کیونکہ اب وہ ایک بااختیار زندگی گزارتی ہیں البتہ وہ ایسے تمام اعتراضات نہ صرف خود سن چکی ہیں بلکہ اپنی دوستوں اور کزنز کو بھی ان مسائل سے نمٹتا دیکھ چکی ہیں۔
ہما کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہی کہا جاتا ہے کہ" اگر تم نے چھوٹے بال رکھ لیے تو تمہاری شادی کیسے ہو گی"؟ان کا کہنا ہے کہ یہ بات بہت عجیب سی ہے کہ انسان اپنے بال بھی صرف اس لیے لمبے یا چھوٹے رکھے کیونکہ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مرد لمبے بالوں والی خواتین کو ہی پسند کرتے ہیں؟"
ان کے مطابق یہ بات معاشرتی دباؤ کی شکل اختیار کر جاتی ہے کہ بال چھوٹے بھی کرنے ہیں تو شادی کے بعد کرنا ۔
ڈاکٹر ندا کرمانی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ سوشیالوجی سے منسلک ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ غیر شادی شدہ لڑکیوں پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اگر ان کے بال لمبے نہ ہوئے تو وہ ایک "آئیڈیل بہو" کے معیار پر پورا نہیں اتریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بظاہر چھوٹا نظر آںے والا یہ معاملہ اتنا معمولی ہے نہیں ۔ ان کے بقول، لمبے بال جہاں خوبصورتی کی علامت تصور کیے جاتے ہیں وہیں جنوبی ایشیائی پدر شاہی معاشرہ چھوٹے بالوں کو صنفی بنیادوں پر بنے رواج، صدیوں پرانی رسوم اور اس نظام کے خلاف ایک بغاوت تصور کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے بالوں کا نام سنتے ہی یا تو اسے "مردانہ وضع قطع سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے" یا "ماڈرن" ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
ندا کرمانی کہتی ہیں کہ درحقیقت اس کا مقصد اس بغاوت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو ایسے فیصلوں کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے۔
سبین آغاکی نظر میں کسی بھی انسان کے وجود کا مقصد یہ نہیں کہ وہ کسی دوسری صنف کی خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے فیصلے کرے، خواہ وہ مردوں کو لمبے بال پسند آںے کا معاملہ ہو یا کچھ اور۔
سارہ بلال کے نزدیک یہ یوں بھی ایک مفروضہ ہی ہے کہ مردوں کو چھوٹے بالوں والی خواتین اچھی نہیں لگتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے چھوٹے بالوں کے سب سے بڑے حامی ان کے شوہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمو ماًوہی خواتین بال چھوٹے رکھتی ہیں جو اپنا الگ تشخص بنانا چاہتی ہیں اور ایسی خواتین میں خود اعتمادی ہوتی ہے تب ہی وہ یہ قدم اٹھاتی ہیں۔
بال لمبے رکھے جائیں یا چھوٹے، ’ع مطابق ‘ میں بات کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہیں اور اگر ان کے اس ا قدام کو پسند کیا جاتا ہےتو یہ خوش آیند ہے لیکن دوسروں کی رائے کو وہ اپنی پسند پر فوقیت نہیں دے سکتیں۔ پھر چاہے اسے بغاوت سمجھا جائے یا فیشن۔