امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چودھری نے پیر کی شام اس بات کا اعادہ کیا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی ''مشترکہ دشمن ہے، جس سے مل کر ہی نمٹا جا سکتا ہے''۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو کرتے ہوئے، سفیر نے کہا کہ ''ثبوت کے بغیر الزام تراشی سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے''۔ برعکس اس کے، دونوں ہمسایہ ملکوں کو چاہیئے کہ اعتماد کی فضا پیدا کریں اور پُرتشدد اور دہشت گردانہ قوتوں کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔
اس ضمن میں، پاکستانی سفیر نے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں وزیر اعظم نواز شریف کی افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کا خصوصی ذکر کیا۔
ایک سوال کے جواب میں سفیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ ''افغان قیادت بغیر ثبوت کے الزام تراشی سے کام لیتی رہی ہے، جس سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملتی''۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ ''ہمسایہ ملک افغانستان میں امن، سلامتی اور استحکام پاکستان کے اپنے حق میں ہے''؛ اور یہ کہ ''پاکستان کو خود دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہے''۔ اس لیے، ''پاکستان کیوں چاہے گا کہ افغانستان کے حالات درست نہ ہوں''۔
سرحد پار حملوں کے افغان الزامات کے بارے میں سفیر نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ''یہ قطعی طور پر درست نہیں''۔ برعکس اس کے، اُنھوں نے کہا ''خود پاکستان کو یہی شکایت ہے، جس کا انسداد و تدارک ضروری ہے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک اور سرحدی علاقوں میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے باعث اب سکیورٹی کی صورت حال ''90 فی صد تک بہتر ہوچکی ہے''؛ اور یہ کہ اس ضمن میں دنیا پاکستان کے عزم، بہتر حکمتِ عملی اور موئثر عملی اقدام کی معترف ہے۔
بعدازاں، صحافیوں کی افطار ڈنر کے دوران اپنے کلمات میں پاکستانی سفیر نے کہا کہ ''اسلام میں خونریزی ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ ساتھ ہی، ثبوت کے بغیر الزام تراشی کی کوئی گنجائش نہیں''۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ اپنے محدود وسائل کے باوجود، پاکستان ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے میں قابلِ قدر اور مثالی حد تک کامیاب رہا ہے۔
افغان مذاکراتی عمل کے بارے میں، پاکستانی سفیر نے کہا کہ یہ بات چیت اور مفاہمتی عمل افغان قیادت کے تحت ہونا چاہیئے، جب کہ اس ضمن میں پاکستان اور چین افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ مفاہمیت کےسلسلے میں تعطل اس وجہ سے پیش رہا ہے، کیونکہ افغان قیادت خود واضح حکمتِ عملی پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتی، اور اُس کی جانب سے مبہم اشارے ملتے رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک تجارت کا تعلق ہے، یہ آپس میں سات دہائیوں سے زیادہ مدت سے جاری ہے۔ بقول اُن کے، ''تجارتی و اقتصادی روابط جاری ہیں اور جاری رہیں گے''۔
امریکہ کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ پالیسی کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس میں توقع ہے کہ زور پاکستان، امریکہ اور افغانستان کی جانب سے مل کر کام کرنے پر دیا جائے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں امن اولین ترجیح کا حامل ہے، جب کہ خود امریکہ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔