افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف 1980 کی دہائی میں ہونے والی جنگ سے جنم لینے والی تنظیم 'القاعدہ' اسامہ بن لادن کی قیادت میں امریکہ کے لیے بتدریج خطرہ بنتی گئی اور بالآخر اس کے دہشت گردوں نے 11 ستمبر 2001 کے ہولناک حملے کیے۔
نائن الیون کے حملوں میں دہشت گردوں نے کمرشل پروازوں کے طیارے اغوا کر کے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگان کی عمارت سے ٹکرائے۔ ان حملوں کے بعد امریکہ کی قیات میں مغربی ممالک کے عسکری اتحاد 'نیٹو' نے افغانستان پر حملہ کیا۔ جس کے بعد امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا آغاز ہوا۔
افغانستان میں شروع ہونے والی یہ جنگ لگ بھگ 20 برس تک جاری رہی جو گزشتہ ماہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ البتہ امریکی حکام اب بھی القاعدہ کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ یہ افغانستان میں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔
القاعدہ نے دنیا کو ایک الگ نوعیت کے خطرے سے دو چار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد بھی فعال رہا۔
دنیا میں دیگر گروہ القاعدہ ہی کے ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے مزید ڈراؤنی شکل میں سامنے آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
القاعدہ کا آغاز کیسے ہوا؟
عربی زبان کے لفظ 'القاعدہ' کے معنی 'بنیاد' بھی ہیں۔ یہ تنظیم سوویت یونین کے افغانستان کے انخلا کے دنوں ہی میں منظم ہوئی تھی۔
افغانستان میں عرب ممالک سے افغانستان میں جنگجوؤں کی بھرتی اور مالی معاونت کے لیے فلسطینی شدت پسند رہنما عبداللہ یوسف عزام نے 'مکتب الخدمت' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے افغان سروس بیورو بھی کہا جاتا تھا۔
ایمن الظواہری اور وائل حمزہ جلیدان جیسے شدت پسند بھی اس بیورو کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے۔ 1980 کی دہائی میں اسامہ بن لادن اس سے وابستہ ہوئے۔
عبداللہ عزام 1989 میں پاکستان کے شہر پشاور میں ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد اسامہ بن لادن نے تنظیم کی قیادت سنبھال لی اور اسے 'القاعدہ' کا نام دیا۔
اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے ایک متمول گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سعودی عرب کی بڑی کاروباری شخصیت تھے۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین نے جب 1991 میں کویت پر حملہ کیا تو اسی دور میں امریکہ کی تین لاکھ فوج نے سعودی عرب کی سرزمین پر قدم رکھا۔
اسامہ بن لادن کا مطالبہ تھا کہ امریکہ کی فوج کو سعودی عرب سے نکالا جائے۔ کیوں کہ وہ امریکی فوج کی سعودی عرب میں موجودگی کو مقدس سرزمین یا 'حرم' کے تقدس کے خلاف تصور کرتے تھے۔
القاعدہ کی بڑی کارروائیاں
اسامہ بن لادن نے 1996 میں باقاعدہ جنگ کا فتویٰ جاری کیا۔ جس کے بعد سات اگست 1998 کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی اور تنزانیہ کے شہر دار الاسلام میں امریکی سفارت خانوں کے باہر بم حملے کیے گئے جس میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
القاعدہ نے 2000 میں یمن کے شہر عدن کی بندرگاہ پر امریکی بحریہ کے جہاز پر خودکُش حملہ کیا جس میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد القاعدہ نے 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں حملے کیے جس نے دنیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ روپوش رہے اور دس برس قبل پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکہ نے ایک آپریشن میں انہیں ہلاک کیا۔
اسامہ کے بعد ۔۔۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہری ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھالی۔ لیکن مبینہ طور پر صحت کے مسائل کی وجہ سے وہ اسامہ بن لادن کی طرح نمایاں نہیں ہو سکے۔
ایمن الظواہری پیشے کے اعتبار سے معالج ہیں۔ وہ 'ایجیپشن اسلامک جہاد' تنظیم میں شامل رہے جو مصری حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی تھی۔ ان کا شمار اسامہ بن لادن کے قریبی معتمد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔
ایمن الظواہری سات اگست 1998 کو تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر القاعدہ کے خودکُش حملوں کی کارروائی میں امریکہ کو مطلوب ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق اقوامِ متحدہ کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمن الظواہری کی صحت اچھی نہیں ہے۔
القاعدہ کا مستقبل
نائن الیون کے بعد جس طرح القاعدہ مشرقِ وسطی میں نمایاں ہو کر سامنے آئی تھی۔ اس کے مقابلے میں رفتہ رفتہ عراق اور شام میں داعش اپنی سفاکی اور خونریز کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسند تنظیموں میں زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے ضیاالرحمٰن کی رپورٹ میں عالمی شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے عبدالسید کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے مرکزی ٹھکانے تھے۔ لیکن اس تنظیم کا اب بظاہر ویسا کوئی وجود نہیں رہا جو نائن الیون کے بعد کے چند برسوں تک تھا۔
اگرچہ امریکہ یا مغرب میں القاعدہ کے نائن الیون جیسے طرز کے حملے کے خطرات کو روکا گیا مگر بعض تجزیہ کاروں کے مطابق القاعدہ نے نائن الیون کے بعد بڑی کامیابی سے جہادی عسکریت پسندی کو دنیا کے دیگر خطوں تک پھیلا دیا ہے۔
القاعدہ کے مستقبل کے حوالے سے دو متضاد بیانیے پائے جاتے ہیں۔ ایک حلقہ سمجھتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے مسلسل رونما ہونے والے واقعات اور بالخصوص رہنماؤں کی ہلاکتوں سے القاعدہ تنظیمی طور پر اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد پھر کسی تباہی کا سبب نہیں بن سکتی۔
دوسرا حلقہ سمجھتا ہے کہ القاعدہ کی حالیہ خاموشی اور خود کو کمزور ظاہر کرنا دراصل تنظیم کی ممکنہ حکمتِ عملی کا حصہ بھی ہو سکتا ہے جس سے شاید مستقبل میں وہ دوبارہ خطے اور عالمی سطح پر خطرہ بن سکتی ہے۔
SEE ALSO: ایبٹ آباد آپریشن کے 10 سال مکمل، اس واقعے کا پاکستان پر کیا اثر پڑا؟افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد القاعدہ کے از سر نو سر اٹھانے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن بھی حال ہی میں اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں اور ماضی میں بھی عسکری ماہرین اور تجزیہ کار ایسے خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو خلیج فارس ریاستوں کے چار روزہ دورے کے اختتام پر کویت سٹی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ القاعدہ خود کو منظم کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔ چاہے وہ صومالیہ ہو یا ایسے علاقے جہاں حکومتوں کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں القاعدہ کی واپسی روکنے کے لیے تیار ہے۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے اور کیا القاعدہ کے پاس افغانستان میں دوبارہ پنپنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔
طالبان کے امریکہ کے ساتھ فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے میں طالبان رہنماؤں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کے لیے خطرہ بننے والی القاعدہ یا کسی اور تنظیم کی حمایت نہیں کریں گے۔
مبصرین القاعدہ سے رشتے توڑنے سے متعلق وعدوں کی پاس داری کو طالبان کے لیے بڑا امتحان قرار دیتے ہیں۔
اس تحریر میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی معلومات بھی شامل ہے۔