مذہبی عدم رواداری پاکستانی معاشرے کے لیے خطرہ ہے: ایلس ویلز

فائل

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لیے مجوزہ بجٹ کی مد میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گیے ہیں، جس میں افغانستان کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر، جبکہ پاکستان کے لیے تقریبا 345 ملین ڈالر رکھے گیے ہیں

سال 2018ء کے لیے، پاکستان اور افغانستان کے امریکی وزارت خارجہ کے مجوزہ بجٹ پر بحث کے لیے سینیٹ کی دو قائمہ کمیٹیوں کی مشترکہ سماعت بدھ کو واشنگٹن میں ہوئی جس میں کمیٹی کے ارکان نے امریکہ کی افغان پالیسی کے تناظر میں سوالات حکام کے سامنے رکھے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لیے مجوزہ بجٹ کی مد میں ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر مختص کیے گیے ہیں، جس میں افغانستان کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر رکھے گیے ہیں، جبکہ پاکستان کے لیے تقریبا 345 ملین ڈالر رکھے گیے ہیں۔

امریکی نمائندہٴ خصوصی برائے افغانستان پاکستان، ایلس ویلز اور یو ایس ایڈ کے سینئر نمائندے، گریگری ہیوگر نے کمیٹی کے سامنے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے انتظامیہ کا مؤقف پیش کیا۔

سماعت کے آغاز ہی میں کمیٹی کی چئیرپرسن نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ اس کے باوجود کہ صدر ٹرمپ نے اسلام آباد سے دہشتگردوں کی مبینہ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے واضع اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔ لیکن، نئی افغان حکمت عملی سے یہ واضع نہیں ہوتا کہ ہم پاکستان کو اس کی قومی سلامتی سے متعلق ترجیحات تبدیل کرنے پر کیسے مجبور کریں گے۔

ایک موقع پر ارکان کو کمیٹی کی کارروائی اس وقت روکنی پڑی جب کمرے میں موجود ایک شخص نے افغانستان میں جاری 16 سالہ جنگ ختم نا ہوسکنے پر با آواز بلند احتجاج کرنا شروع کر دیا۔

کمیٹی کے رکن، ٹیڈ یوہو، جو امریکی ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے نائب چئیرمین بھی ہیں، پاکستان کی انسداد دہشتگردی کے حوالے سے کوششوں سے متاثر نظر نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی مد میں امریکہ سے دسیوں ارب ڈالر وصول کیے۔ لیکن، اس کے باوجود پاکستان میں دہشت گرد گروہ کھلے عام اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ایسا کیا ہوگا کہ پاکستان اپنی سمت تبدیل کرے گا۔

سماعت کے دوران، امریکی حکام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کر رہا ہے جس پر نمائندہٴ خصوصی کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر امریکہ پاکستان سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن، فی الحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

کمیٹی کے ارکان نے قائم مقام نائب سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا وہ بتا سکتی ہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ کب ختم ہوگی، جس پر ایلس ویلز نے معذرت ظاہر کی۔

اس کے علاوہ، مجوزہ بجٹ میں رواں سال کے مقابلے میں 40 فیصد سے زیادہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس میں یوہو نے پوچھا کہ کیا اس کٹوتی سے امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف متاثر ہوں گے، جس کے جواب میں نمائندہٴ خصوصی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔

اس سماعت کے بعد، وی او اے اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نمائندہٴ خصوصی ایلس ویلز نے کہا کہ ’’پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پُر عزم ہیں۔ نتیجتاً بہت سے اندازے بدل جائیں گے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں اور طالبان پر دباؤ ڈالنا کہ مذاکرات کی میز پر آنے کا وقت آگیا ہے۔‘‘

نمائندہٴ خصوصی، ایلس ویلز نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے آج کی دنیا میں دفاعی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اُن کے بقول، ’’درحقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے گروہوں کے باعث پاکستان کا اعتدال پسند معاشرہ اور مذہبی رواداری متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں بطور معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے ان میں سے کچھ منفی تبدیلیوں پر کچھ حلقوں میں تحفظات ہیں۔‘‘

امریکی نمائندہٴ خصوصی نے ایک بار پھر امریکی مؤقف دہرایا کہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، چاہے وہ حقانی نیٹ ورک ہو یا جیش محمد یا لشکر طیبہ۔

Your browser doesn’t support HTML5

مذہبی عدم رواداری اور پاکستانی معاشرہ