افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور قیامِ امن کے لیے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی کوشش ہو گی کہ طالبان کو جنگ بندی پر قائل کیا جائے۔
مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ 20 سال میں پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان میں براہِ راست مذاکرات میں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
خیال رہے کہ افغان حکومت نے باقی ماندہ 400 طالبان قیدی رہا کر دیے ہیں جس کے بعد بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات آئندہ ہفتے کسی بھی وقت شروع ہو سکتے ہیں۔
افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق طالبان کے تمام 5000 قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اب براہِ راست مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔
رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان میں امن معاہدے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مابین 10 مارچ کو بین الافغان امن مذاکرات شروع ہونے تھے۔ لیکن قیدیوں کے تبادلے پر اختلافات کے باعث مذاکرات کے آغاز میں چھ ماہ کی تاخیر ہو چکی ہے۔ طالبان کی 5000 قیدیوں کی رہائی بین الافغان امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے پیشگی شرط تھی۔
'مذاکرات کے آغاز ہی میں طالبان کو جنگ بندی پر قائل کیا جائے'
ان مذاکرات کے حوالے سے تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ افغان حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ مذاکرات کے آغاز ہی میں طالبان کو جنگ بندی پر قائل کیا جائے۔ کیوں کہ بات چیت کا عمل اور پر تشدد کارروائیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔
سمیع یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز قریب ہے۔ طالبان قیادت کا جو وفد ملا عبد الغنی برادر کی قیادت میں پاکستان گیا تھا وہ ہفتے کو قطر کے شہر دوحہ پہنچ رہا ہے۔
خیال رہے کہ افغان حکومت نے 5000 قیدیوں میں سے چند کو رہا نہیں کیا۔ کابل حکومت کے مطابق ان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بعض ممالک نے اعتراض کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کے مطابق ملا عبد الغنی برادر کے دوحہ پہنچنے کے بعد ان سات قیدیوں کا انتظار کیا جائے گا جنہیں افغان حکومت نے آسٹریلیا اور فرانس کے کہنے پر رہا نہیں کیا۔ یہ قیدی افغانستان میں آسٹریلیا اور فرانس کی افواج کے قیام کے دوران ان کے اہل کاروں پر حملوں میں ملوث تھے۔
سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ اب یہ قیدی بھی قطر منتقل کر دیے جائیں گے۔ اس حوالے سے مشاورت جاری ہے جس کے بعد افغان حکومت اپنے نمائندے مذاکرات کے لیے دوحہ بھیجیں گے۔
'طالبان کی ترجیح سیز فائر کی بجائے دوسرے امور پر بات چیت ہو گی'
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ یہ مذاکرات بہت طویل، پیجیدہ، مشکل اور چیلنجنگ مذاکرات ہوں گے۔
ان کے بقول افغان حکومت کا جنگ بندی کے بارے میں دو ٹوک مؤقف ہے اور اس میں انہیں امریکہ، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کی تائید بھی حاصل ہے تاکہ مذاکرات کے دوران ماحول خوش گوار رہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی ترجیح سیز فائر کی بجائے پہلے دوسرے امور پر بات چیت ہو گی۔
مبصرین کے مطابق فریقین کو مذاکرات سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ دہائیوں سے جاری شورش کا خاتمہ ہو سکے۔
'مذاکرات کا اہم پہلو امریکہ کی براہِ راست شمولیت ہے'
پاکستان کے سابق وفاقی وزیرِ داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد شیرپاؤ کہتے ہیں کہ دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان براہِ راست باضابطہ مذاکرات کریں گے۔
ان کے بقول قیامِ امن کے لیے دونوں فریقوں کو کافی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں امریکہ براہِ راست شامل ہے۔ کیوں کہ تمام مذاکرات امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کیے ہیں۔
انہوں نے مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کی امید ظاہر کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ بین الافغان امن مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہو گا۔ کیوں کہ دونوں فریقوں کے نظریوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔
ان کے مطابق امن کے حصول کے لیے دونوں کو خواتین کے حقوق، لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق سمیت دیگر امور پر لچک دکھانی ہو گی۔ تب ہی وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچ پائیں گے۔
سابق وزیرِ داخلہ کے مطابق افغانستان میں امن کا مطلب تمام ہمسایہ ممالک کی ترقی ہے۔ ان کے مطابق پُرامن افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔