چین نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے جلد آغاز کا خواہاں ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے یہ بات اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمر سے ٹیلی فون پر ایک گفتگو کے دوران کہی ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق افغانستان اور چین کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان یہ گفتگو جمعرات کو ہوئی۔ جس میں دونوں سفارت کاروں نے اقتصادی تعاون، علاقائی روابط کے موضوعات اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن عمل کی تازہ صورتِ حال پر تبادلہ کیا ہے۔
دونوں وزرائے خارجہ نے افغانستان میں امن مذاکرات سے متعلق علاقائی تعاون، حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، طالبان کی طرف سے تشدد کم کرنے اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت پر بھی غور کیا۔
چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین افغان حکومت کی سربراہی میں امن عمل کی حمایت اور افغان مشاورتی لویہ جرگے کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔
وانگ یی نے مزید کہا کہ چین افغان حکومت اور طالبان کے درمیان فوری مذاکرات کے آغاز کا خواہاں ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حال ہی میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد سمیت دیگر اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول اور مستقل جنگ بندی کے لیے فوری بین الافغان مذاکرات شروع کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان امن عمل میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ چین کا کردار اہم ہو سکتا ہے، کیوں کہ بیجنگ کے نہ صرف افغان حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں بلکہ طالبان کے ساتھ بھی ان کے رابطے رہے ہیں اور افغانستان میں امن نہ صرف خطے بلکہ چین کے بھی مفاد میں ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی راہ میں مشکل مرحلہ قیدیوں کی رہائی کا ہے۔ اس کی وجہ سے بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو رہی ہے۔
ان کے بقول چین کا یہ بیان بھی بین الاقوامی برادری اور امریکہ کے اس موقف کا تائید کرتا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کے جلد از جلد آغاز کے خواہش مند ہیں۔
ادھر افغان صدر اشرف غنی نے جمعرات کو کہا تھا کہ ان کی حکومت نے وقار کے ساتھ امن کے لیے تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور امن کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
افغان سیکیورٹی فورسز کے نام اپنے پیغام میں صدر غنی نے طالبان پر بھی زور دیا کہ وہ مستقل جنگ بندی کو قبول کرتے ہوئے فوری طور پر حکومت سے مذاکرات شروع کریں۔
طالبان کا موقف ہے کہ بین الافغان مذاکرات سے پہلے ان کے باقی ماندہ تمام قیدیوں کی رہائی ضروری ہے۔ جب کہ جنگ بندی کا معاملہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد کسی مرحلے پر زیرِ بحث آ سکتا ہے۔
حال ہی میں افغان مشاورتی 'لویہ جرگہ' کی سفارش پر صدر اشرف غنی نے بقیہ 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ ان قیدیوں کے حوالے سے افغان حکومت کا موقف تھا کہ صدر کے پاس انہیں رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ان قیدوں میں سے 80 کو رہا کیا جا چکا ہے۔ لیکن بعض ممالک نے افغان حکومت سے ان طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے لیے کہا ہے جو مبینہ طور پر افغانستان میں ان کے شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث رہے ہیں۔
افغانستان کی قومی سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب نے کہا ہے کہ حکومت نے طالبان کے باقی رہ جانے والے 400 قیدیوں میں سے 80 کو رہا کر دیا ہے۔ اب طالبان بھی اپنی تحویل میں موجود افغان کمانڈوز اور ہوا بازوں کو رہا کریں تاکہ قیدیوں کی رہائی کے عمل میں پیش رفت ہو سکے۔
طالبان کا موقف ہے کہ رواں سال فروری میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات سے پہلے ان کے تمام قیدیوں کی رہائی ضروری ہے۔
ادھر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے بدھ کو کابل میں ایک حملے میں افغان دانشور عبدالباقی امین کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔