پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع سمیت مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف بنوں سے ملحقہ نیم قبائلی علاقے جانی خیل اور وفاقی مخلوط حکومت میں شامل اہم اتحادی جماعت جمیعت العلماء اسلام ف کے زیر اہتمام پشاور میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خاتمے اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے ۔
بنوں اور شمالی وزیرستان کو ملانے والے نیم قبائلی علاقے جانی خیل کے امن جرگہ میں مقامی قبائلی رہنماؤں اور عام لوگوں سمیت عوامی نیشنل پارٹی، پشتون تحفظ تحریک، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے پشاور اور بنوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے بھی شرکت کی۔
تاہم اس جرگے میں علاقے سے منتخب اراکین پارلیمان، صوبائی وزیر ملک شاہ محمد اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر ضیاء درانی اور پاکستان تحریک انصاف اور جمیعت العلماء اسلام ف کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت نہیں کی ۔جب کہ اتوار کو پشاور میں مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں جمیعت العلماء اسلام ف کے تحت ہونے والے جرگے میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور نمائندے شریک ہوئے۔
جانی خیل کا جرگہ
بنوں کے نواح میں واقع جانی خیل کے قبائلی رہنماؤں کے زیر انتظام امن جرگے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور اس میں مختلف سیاسی جماعتوں کےلیڈروں اور لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
2021 میں اس علاقے میں چار کمسن لڑکوں سمیت متعدد افراد کو گھات لگا کر قتل کر دیا گیا تھا ۔ ان واقعات کے رد عمل میں مقامی لوگوں نے مارچ اور جولائی 2021 میں لاشوں سمیت کئی دنوں تک دھرنے دیے تھے ۔جنہیں ختم کرانے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے مظاہرین کے ساتھ معاہدے کیے تھے ۔
جرگے کا اعلامیہ
جانی خیل امن جرگے میں متفقہ طور پر منظور کیے جانے والے اعلامیے میں عسکریت پسندوں یا طالبان کے خلاف کی جانے والی فوجی کاروائی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ فوجی کاروائیوں کی کامیابیوں کے دعوؤں کے باوجود علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور واقعات کی فوری تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ جرگہ نے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر متفقہ لائحہ عمل اپنانے پر زور دیتے ہوئے واضح الفاظ میں فوجی کاروائی یا آپریشن کی مخالفت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعلامیے میں پچھلے سال کے احتجاجی دھرنوں کے خاتمے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے وعدے پورے کرنے پر بھی زور دیا گیا ۔
دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریش پر تحفظات کیوں؟
جانی خیل قومی جرگہ کے سربراہ ملک موویز خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہوں نے اس بنیاد پر فوجی آپریشن پر تحفظات کا اظہار کیاہے کیونکہ ماضی قریب میں اس قسم کے آپریشن کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے فوجی آپریشن ’ضرب غضب‘ کے لیے لاکھوں لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔
فوجی کاروائی کے دوران ان کے گھروں سے روایتی قانونی اسلحہ جمع کرکے عام لوگوں کو غیر مسلح کر دیا گیا تھا۔ اب بھی علاقے میں فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کی چوکیاں اور جاسوسی نیٹ ورک موجود ہیں مگر اس کے باوجود دہشت گردی کے واقعات کے تواتر سے ہونے پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ایم پی اے سردار حسین بابک نے جانی خیل امن جرگہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشتونوں پر مسلط کردہ بیرونی جنگ کا راستہ روکنے کیلئے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی کی لہر میں پختون وکیل، استاد، طالب علم، آفیسر متاثر ہوئے ہیں۔ ہمارا علماء کرام، دینی مدارس، عدالتوں اور شعبہ صحافت سے مطالبہ ہے کہ وہ بدامنی کے خلاف آواز اٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور شمالی وزیرستان سے آزاد رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر نے جرگے سے خطاب میں کہا کہ امن محض ایک لفظ نہیں بلکہ اس میں زندگی ہے ۔ ہم مزید آپریشن کے خلاف ہیں۔ ہم مسلح گروپس سے بھی کہتے ہیں کہ آپ کو ہماری خواتین اور بچوں کی حالت زار پر ترس آنا چاہیے۔
SEE ALSO: اسلام آباد: سیکیورٹی چیکنگ کے دوران خودکش دھماکا، پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک
پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ یہ بقول ان کے دہشت گردی کے نام پر جاری جنگ بین الاقوامی قوتوں کے مفادات کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں طالبان کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔
پشاور کی آل پارٹٰیز کانفرنس کا اعلامیہ
جمعیت علماء اسلام ف صوبہ خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام ملک کی سرکردہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس نے خیبر پختونخوا میں جاری بدامنی، ٹارگٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان اور قتل و غارت گری کے واقعات روکنے کے لیے صوبائی حکومت سے سنجیدہ اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھتہ خوری کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ۔
اعلامیے میں خیبر پختونخوا حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ صوبہ میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرے بصورت دیگر اپوزیشن جماعتیں صوبائی حکومت کے خلاف سخت فیصلوں پر غور کرسکتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں ہونے والی اے پی سی کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں صوبہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور بدعنوانی کی روک تھام پر زور دیتے ہوئے بی آرٹی، مالم جبہ کیس،آٹا چینی سکینڈل اور فارن فنڈنگ کیس میں ملوث ذ مہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقوں سمیت شہری علاقوں میں بھی امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں اور عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
SEE ALSO: مکران کا شدت پسند گروپ ٹی ٹی پی میں شامل: پاکستان، چین اور ایران کے لیے نیا خطرہ؟
کل جماعتی کانفرنس پر خیبر پختونخوا حکومت کا ردعمل
کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے پر اپنے ردعمل میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ یہ ایک ناکام کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا حکومت کو بلایا ہی نہیں گیا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کے لیے تمام ادارے بھرپور کردار ادا کررہے ہیں۔بیرسٹر سیف نے کہا کہ جانی خیل کے جرگے کے مطالبات پر عمل در آمد کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
پاکستان فیڈریشن آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے خیبر پختونخوا کے لیے رابطہ کار سرتاج احمد خان نے، جو حال ہی میں افغانستان کے دورے سے واپس آئے ہیں، وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس سے انسانی جانوں کے نقصان سمیت معاشی اور کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے سے حکمت عملی وضع کرنے پر زور دیا۔