پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی آٹھ فروری کو شیڈول انتخابات کے لیے سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سیکیورٹی خدشات کے سائے میں سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔
صوبے بھر میں قومی اسمبلی کی 16 جب کہ صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر مجموعی طور پر دو ہزار 465 کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔
بلوچستان میں 2024 کے عام انتخابات میں صوبائی سطح کی سیاسی جماعتوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی شامل ہیں۔
قومی سطح کی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر شامل ہیں۔
صوبے کے عوام کو اُمیدواروں سے کیا توقعات ہیں؟
کوئٹہ کی سریاب روڈ کے رہائشی عادل نذیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سریاب کا علاقہ 21 ویں صدی میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ یہاں کے سب سے بڑے مسائل میں پانی کی قلت، گیس پریشر میں کمی اور صفائی کی ناقص صورتِ حال ہے۔
عادل نذیر کے بقول "2018 کے انتخابات میں ہم نے بلوچستان کی قوم پرست جماعت بی این پی (مینگل) کا انتخاب کیا اور علاقے کے عوام نے بھاری اکثریت سے امیدوار کو کامیاب بنایا۔"
عادل نذیر نے بتایا کہ علاقے کے ممبر صوبائی اسمبلی پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے لیکن گیس کی کمی اور علاقے کے دیگر مسائل حل نہ ہو سکے۔
عادل نذیر کہتے ہیں کہ اس بار الیکشن میں علاقے کے عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ ووٹ سوچ سمجھ کر دیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی کیوں مسترد ہوئے؟
بلوچستان میں قوم پرست سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل اور ان کی جماعت کے دیگر بعض امیدواروں سمیت پاکستان تحریک انصاف، پی کے میپ اور بعض آزاد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔
بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کے قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذات مسترد کیے گئے تھے۔ تاہم بلوچستان ہائی کورٹ نے کوئٹہ کے حلقہ این اے 246 سے اُنہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔
پاکستان تحریکِ انصاف ضلع کوئٹہ کے صدر سابق میئر و ڈسٹرکٹ ناظم محمد رحیم کاکڑ نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران الیکشن کمیشن پر ایسے ہی الزامات عائد کیے جن میں انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے پی ٹی آئی کے 98 فی صد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو جان بوجھ کر مسترد کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں نے عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا ہے اور بعض امیدواروں کو وہاں سے انصاف ملا ہے ہمیں امید ہے کہ دیگر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی کا معاملہ دیکھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جا رہا۔
بلوچستان میں بڑی تعداد میں امیدواروں کے کاغذات کیوں مسترد ہوئے؟
بلوچستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ گو کہ بڑے پیمانے پر امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں۔ لیکن یہ پہلا مرحلہ ہے ہم نے دیکھا ہے کہ بعض امیدواروں کو اپیل میں انصاف مل رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ جہاں تک سیاسی جماعتوں کے تحفظات کی بات ہے تو یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ الیکشن کے ماحول میں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ لوگ پہلے ہی یہ الزامات عائد کرتے ہیں کہ دھاندلی ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول ”اب تک ایک نئے لفظ کا اضافہ ہوا ہے کہ ہمیں ”لیول پلیئنگ فیلڈ“ نہیں دی جارہی اس سے قبل ہم شفافیت اور فری اینڈ فیئر الیکشن سنتے تھے۔"
ممکنہ اتحاد
شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں حکومت سازی اور سیاسی اتحاد کے لیے ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔
ان کے بقول بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی پوزیشن بہتر ہے کیوں کہ اگر مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی وہ ان کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) بلوچستان میں صوبائی سطح کی جماعتوں بی این پی اور پی کے میپ کی بھی اتحادی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کر لیں۔
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اقتدار کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دونوں ہی جماعتوں نے حال ہی میں بلوچستان کے الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملا لیا ہے۔ ایسے میں انہیں بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے صرف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ ہی اتحاد کی ضرورت پیش آ سکتی ہے جو ایک مضبوط اتحاد بن کر ابھرے گی۔
بلوچستان کے سینئر صحافی رشید بلوچ کے خیال میں بی اے پی یعنی (باپ) 2018 میں جلد بازی میں بنایا گیا ایک ایسا پروجیکٹ تھا جو 2024 کے انتخابات کے آتے ہی اپنا وجود کھو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رشید بلوچ نے کہا کہ جو (باپ) میں تھے وہ پارٹی چھوڑ کر مختلف جماعتوں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی میں اب تک جا چکے ہیں۔ اب اگر ہم باپ پارٹی کو دیکھتے ہیں تو اس میں سوائے ایک یا دو الیکٹ ایبلز میں سے زیادہ اور کوئی نظر نہیں آتا۔
بلوچستان کے ووٹرز کی پسندیدہ جماعتیں قومی یا قوم پرست؟
رشید بلوچ کے مطابق بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں میں سے نیشنل پارٹی عام انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو سکتی ہے اور دوسری قوم پرست جماعت بی این پی کے لیے بہت سی مشکلات موجود ہیں۔
ماہرین کے مطابق بلوچستان کی عوام یہاں کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کے حق میں ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ یہاں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کو بھی پذیرائی مل سکتی ہے۔
سیکیورٹی خدشات
بلوچستان میں سال 2023 میں پانچ خودکش حملے ہو چکے ہیں جن میں سے بعض کا نشانہ سیاسی جماعتوں کے قائدین رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے بھی بلوچستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں سے متعلق سیکیورٹی تھریٹس جاری ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ کے انتخابی حلقے میں ایک مہلک حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ میر سراج رئیسانی سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں بھی انتخابات کے روز مشرقی بائی پاس، نواں کلی، کلی کوتوال، دشت اور دیگر علاقوں میں بھی حملے ہو چکے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ جس طرح 2013 اور 2018 کے عام انتخابات کے دوران بلوچستان میں حالات خراب تھے اس بار ایسا نہیں لگتا کہ بلوچستان میں انتخابات کے دوران سیکیورٹی کے زیادہ مسائل ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کے بقول سن 2013 کے عام انتخابات ہم نے دیکھا کہ سیکیورٹی کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ بہت کم رہا اور پولنگ کے دن بہت کم تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تھے۔
اُن کے بقول الیکشن میں انہی سیاسی جماعتوں کو کامیابی ملی جو تمام مشکلات کے باوجود اپنے ووٹرز کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب ہوئے۔
وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آئندہ انتخابات کے انعقاد کے بعد حکومت سازی اور وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں اہم سیاسی شخصیات جن میں سابق وزرائے اعلیٰ جام کمال خان، نواب محمد اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سابق وزیرِ اعلیٰ قدوس بزنجو شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نوابزادہ گزین مری، سابق نگراں وفاقی وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی سابق صوبائی وزیرِ ظہور بلیدی اور دیگر شخصیات بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔
صوبائی الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں انتخابات کے لیے 5067 پولنگ اسٹیشنز بنائے جائیں گے۔
صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز انور چوہان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں 2058 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور 2180 حساس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پولنگ اسٹیشنز کو سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔