یہ 2007 کی بات ہے جب سینکڑوں فوجی اہل کاروں نے شیخ حسینہ کو حراست میں لینے کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اس وقت بنگلہ دیش کی اپوزیشن لیڈر تھیں۔ فوج نے انہیں حراست میں لے کر دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا تھا جہاں انہیں بھتہ خوری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
شیخ حسینہ 1996 سے 2001 تک وزیرِ اعظم بھی رہی تھیں۔ انہوں نے خود پر لگائے گئے الزامات کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی سازش قرار دیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ ایسے وقت میں اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی تھیں جب فوجی کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے تحت بنگلہ دیش ہنگامی حالت میں گھرا ہوا تھا۔
ان کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق شیخ حسینہ کو جیل میں رہنے اور بیرونِ ملک جانے میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنے کا کہا گیا تھا جس پر انہوں نے جیل جانا قبول کیا۔ 11 ماہ بعد انہیں رہا کیا گیا تو انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور 2008 میں دوبارہ وزیرِ اعظم منتخب ہوگئیں۔
آج 76 سالہ شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی تاریخ کی سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی وزیرِ اعظم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات میں مسلسل چوتھی مرتبہ اور مجموعی طور پر پانچویں مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی تیاری کر رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بنگلہ دیش کے انتخابات شیخ حسینہ کے 15 سالہ اقتدار کے بعد ہو رہے ہیں۔ اس عرصے میں وہ جمہوریت کی خاطر لڑنے والی ایک لیڈر سے تبدیل ہو کر، ان کے ناقدین کے بقول، خود جمہوریت کے لیے بڑے خطروں میں شامل ہوچکی ہیں۔
شیخ حسینہ کی سب سے بڑی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) ہے جو سات جنوری کے انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔ بی این پی کا کہنا ہے کہ حکومت منصفانہ انتخابات یقینی نہیں بنا سکتی۔
بنگلہ دیش کے جلا وطن اپوزیشن رہنما اور سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے بیٹے طارق رحمٰن نے اپنی پارٹی کے بائیکاٹ کا دفاع کرتے ہوئے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ اتوار کو بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات "دھوکہ" ہیں۔
ان کے بقول یہ انتخابات وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
طارق رحمٰن 2018 میں اپنی والدہ کے جیل جانے کے بعد سے بی این پی کی قیادت کر رہے ہیں۔
چھ سال قبل طارق رحمن کو شیخ حسینہ کی انتخابی ریلی پر دستی بم سے حملے کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام میں ان کی غیر موجودگی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے اس الزام کو من گھڑت قرار دیا تھا۔
طارق رحمٰن نے کہا کہ ان کی پارٹی کے لیے موزوں نہیں ہوگا کہ وہ کسی ایسے الیکشن میں حصہ لے جس کے نتائج "پہلے سے طے شدہ" ہیں۔
البتہ شیخ حسینہ کے حامی کہتے ہیں کہ حسینہ اور ان کی جماعت عوامی لیگ نے انہیں ایک نیا بنگلہ دیش دیا ہے جس میں پہلے بار بار بجلی جاتی تھی اور اب وہاں صنعتیں چل رہی ہیں۔
ان کے بقول، شیخ حسینہ کے دور میں زیادہ لڑکیاں اسکول جا رہی ہیں، ترقیاتی منصوبے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ جو استحکام لائی ہیں اس نے ان فوجی بغاوتوں کا راستہ روک دیا ہے جو بنگلہ دیش کی مختصر سیاسی تاریخ میں مسلسل سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی رہی تھیں۔
موجودہ حالات میں بعض مایوس ووٹرز بھی ہیں جن کے خیال میں ملک کے سیاسی اسٹیٹس کو میں تبدیلی کا بہت کم امکان دیکھتے ہیں۔
اس سب کا آغاز کیسے ہوا؟
بنگلہ دیش میں 15 اگست 1975 کو ہونے والی فوجی بغاوت نے شیخ حسینہ کی سیاسی زندگی کا رُخ متعین کیا۔ یہ بغاوت شیخ حسینہ کے والد اور آزاد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کے خلاف ہوئی تھی جب پاکستان سے علیحدگی کے بعد ملک کو آزاد ہوئے لگ بھگ چار برس کا عرصہ ہی گزرا تھا۔
اس رات فوج کے ایک گروپ نے ڈھاکہ میں ان کے خاندانی گھر پر دھاوا بول کر شیخ حسینہ کے والدین، تین بہن بھائیوں اور گھر کے دیگر عملے سمیت مجموعی طور پر 18 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اس وقت 28 سالہ شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن جرمنی میں موجود تھیں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس وحشیانہ اقدام کے سے پیدا ہونے والے ردِ عمل ہی نے شیخ حسینہ کو طاقت ور حکومت کے حصول کی راہ پر گام زن کیا۔ جب کہ کچھ کا خیال ہے اس واقعے نے سیاسی کریئر کے دوران شیخ حسینہ کا حوصلہ بندھائے رکھا۔
ایس او اے ایس یونیورسٹی آف لندن میں جنوبی ایشیائی اسٹرٹیجک امور کے ایک سینئر لیکچرار اویناش پالیوال کہتے ہیں کہ بطور سیاست داں شیخ حسینہ کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ غم کو طاقت بنانا جانتی ہیں۔
شیخ حسینہ کے ساتھ کام کرنے والے ایک ذریعے کے مطابق حسینہ کے لیے ان کے والد آزاد بنگلہ دیش کے بانی تھے جن کی فورسز نے بھارت کی مدد سے 1971 میں پاکستان کو شکست دی تھی۔ ان کے بقول حسینہ ایک ایسی قوم کی تشکیل کا عزم رکھتی تھیں جس کا خواب ان کے والد نے دیکھا تھا۔
ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ شیخ حسینہ نے محسوس کیا کہ ان کے والد کا کام ادھورا رہ گیا ہے اور وہی اسے مکمل کرسکتی ہیں۔
قتل کے بعد شیخ حسینہ نے بھارت میں جلا وطنی کی زندگی گزاری جس کے بعد وہ بنگلہ دیش آگئیں اور انہوں نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے 1980 کی دہائی تک انہیں نظر بند رکھا اور ان کی نقل و حرکت پر بھی قدغنیں عائد رہیں۔
ان مشکلات سے گزرنے کے بعد 1996 کے عام انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ ملک کی وزیرِ اعظم بنیں۔
دو خواتین دو جماعتیں
اس کے بعد شیخ حسینہ اور سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کے درمیان دہائیوں تک اقتدار کی کشمکش جاری رہی اور دونوں سیاسی حریف کے طور پر آمنے سامنے رہیں۔
خالدہ ضیا اس وقت بیمار ہیں اور انہیں حکومت نے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے۔
دونوں خواتین باری باری اقتدار میں آتی رہیں اور ان کی سیاسی مخاصمت میں تلخی بھی بڑھتی گئی۔ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی تلخیوں نے بنگلہ دیش میں شدید سیاسی تقسیم پیدا کی۔
شیخ حسینہ اکثر بی این پی پر سخت گیر انتہاپسندوں کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام عائد کرتی ہیں اور اسی بنیاد پر بی این پی کو ملکی سیاست سے باہر رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی جماعت کو اعتدال پسند اور سیکولر قرار دیتی ہیں۔ تاہم خالدہ ضیا کی بی این پی کا دعویٰ ہے کہ عوامی لیگ اقتدار میں رہنے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتیں مختلف نظریاتی تشخص پیش کرتی ہیں لیکن دونوں جماعتوں کی تاریخ انتخابات میں تشدد اور انتقام کی سیاست سے داغ دار ہیں۔
حال ہی میں شیخ حسینہ کی حکومت نے دسمبر میں ایک مسافر ٹرین کو آگ لگنے سے چار افراد کی ہلاکت کے بعد بی این پی پر آتش زنی اور تخریب کاری کا الزام لگایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ بی این پی انتخابات سے قبل افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بی این پی نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
شیخ حسینہ کی جماعت سال 2001 کے عام انتخابات ہار گئی تھی جس کے بعد وہ اپوزیشن لیڈر بنیں۔ تاہم سال 2008 تک ان کے دوبارہ منتخب ہونے تک اس بیچ کے عرصے میں سیاسی تشدد، بد امنی اور فوج کی مداخلت جاری رہی۔
بعد ازاں جب وہ اقتدار میں آئیں تو اس بار انہوں نے معیشت پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ایسا انفراسٹرکچر بنایا جو پہلے بنگلہ دیش میں نہیں دیکھا گیا تھا۔
اسی طرح بجلی کا ایک طاقت ور گرڈ بنایا جو دور دراز گاوؤں تک جاتا ہے جب کہ ہائی ویز، ریل لائنز اور بندرگاہوں جیسے بڑے منصوبے بھی بنائے اور ملک کی گارمینٹ انڈسٹری کو دنیا کی مسابقتی صنعتوں میں سے ایک بنایا۔
ڈھاکہ میں رکشہ چلانے والے عبدالحلیم کہتے ہیں کہ وہ وزیرِ اعظم کے حامی نہیں لیکن "حسینہ نے ہمیں بجلی دی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا تھا کہ ان کے خاندان کو گھر میں کبھی بجلی نہیں ملے گی۔ لیکن اب پورے گاؤں میں بجلی ہے۔
اس ترقی کے فوائد سے دیگر پیش رفت بھی ہوئیں۔ لڑکیوں کو لڑکوں کے برابر تعلیم دی گئی اور خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد افرادی قوت میں شامل ہوئی۔
شیخ حسینہ کے قریبی ساتھی حسینہ کو خواتین اور غریب لوگوں کی بہتری کے لیے بہت پُرجوش قرار دیتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں اسلامی عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو بے اثر کرنے کا سہرا بھی دیتے ہیں۔
ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے ایک قانون ساز محمد اے عرفات کے مطابق حسینہ نے بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کے لیے جو کیا ہے وہ "غیر معمولی" ہے۔
سات جنوری کے الیکشن
عام انتخابات سے قبل شیخ حسینہ اپنی چند نمایاں کامیابیوں کا پرچار کر رہی ہیں جن میں ڈھاکہ کی میٹرو اور 2021 میں افتتاح کیے گئے ملک کے سب سے طویل پُل کا ذکر بار بار آتا ہے۔
انہوں نے خود کو ایک غریب قوم کی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے جسے وہ 2031 تک ایک اعلیٰ متوسط آمدنی والا ملک بنانے کی خواہش مند ہیں۔
شیخ حسینہ نے 2023 میں کہا تھا کہ "بنگلہ دیش پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گا۔ یہ ایک اسمارٹ، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بننے کے لیے آگے بڑھے گا۔"
لیکن حالیہ عالمی اقتصادی سست روی سے بنگلہ دیش بھی بچ نہیں سکا ہے اور اس کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ اس صورتِ حال نے مزدوروں میں بے چینی اور حکومت کے خلاف عدم اطمینان کو جنم دیا ہے۔
محمد شاہد ڈھاکہ میں ایک رکشہ ڈرائیور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ روکنے میں ناکام رہی ہے۔ پھلیاں اور ٹماٹر کی قیمتیں دو سالوں میں تقریباً دوگنی ہوگئی ہیں۔ ہم انہیں مزید خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ڈھاکہ کی رہائشی 46 سالہ تمنا رحمٰن جیسے ووٹرز کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو کسی حقیقی مقابل کا سامنا نہیں۔ ہمارے پاس حسینہ کو دوبارہ منتخب کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔
شیخ حسینہ کے ناقدین کہتے ہیں کہ ان کی حکومت اختلافِ رائے کو دبانے، پریس کی آزادیوں کو کم کرنے اور سول سوسائٹی کو محدود کرنے کے لیے سخت ہتھ کنڈے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم حکومت ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
سال 2018 کے انتخابات میں عوامی لیگ کی قیادت میں بننے والے اتحاد نے پارلیمنٹ کی 96 فی صد نشستیں جیتی تھیں۔ تاہم اس اس دوران ان پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے جس کی انتظامیہ نے تردید کی تھی۔ سال 2014 میں ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
بی این پی کا کہنا ہے حالیہ مہینوں میں اس کے تقریباً 20 ہزار ارکان کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم اتوار کے الیکشن سے قبل بی این پی کے ہزاروں حامیوں نے ریلیاں نکالیں جب کہ کچھ مظاہرے پرتشدد شکل بھی اختیار کرگئے تھے۔
خالدہ ضیا کے نظر بند ہونے اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے جیل یا جلا وطن ہونے کی وجہ سے مبصرین کا خیال ہے کہ حسینہ کا دوبارہ اقتدار میں آنا صاف نظر آتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ آزاد امیدواروں کا ایک مجموعہ جس میں کچھ عوامی لیگ سے بھی شامل ہیں اور چند چھوٹی اپوزیشن جماعتیں مقابلے کی ایک جھلک پیش کرنے کے لیے ہیں۔ لیکن یہ سب مل کر بھی کوئی بڑا چیلنج ثابت نہیں ہوسکتیں۔
شیخ حسینہ کی حکومت کا یہ اصرار ہے کہ انتخابات منصفانہ ہیں اور وہ انتخابی دوڑ سے باہر رہنے پر بی این پی کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات بنگلہ دیش کی جمہوریت کو درپیش بڑی مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں۔
یونیورسٹی لیکچرار اویناش پالیوال کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ اپنی فیصلہ سازی میں آمرانہ طرزِ عمل کی تاریخ رکھتی ہیں اور موجودہ انتخابات مکمل طور پر ایک پارٹی کی بالادستی پر حتمی مہر ثابت ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ سال مئی میں بنگلہ دیش میں انتخابی عمل میں خلل ڈالنے والوں پر ویزا پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان واشنگٹن کی جانب سے بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور پریس کی آزادیوں پر تشویش کے اظہار کے بعد سامنے آیا تھا۔
تجزیہ کاروں نے امریکہ کے اس اقدام کو شیخ حسینہ پر منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے طور پر دیکھا تھا۔ مگر شیخ حسینہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ اسے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں شیخ حسینہ کو دباؤ میں دیکھا گیا۔ انہوں نے اس کانفرنس کے دوران کہا کہ "اگر آپ زیادہ بولیں گے تو میں سب کچھ بند کردوں گی۔"
ڈھاکہ میں قائم سینٹر فار گورننس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ظل الرحمٰن کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ جو 19 قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہیں اور جن کے سیاسی دشمنوں کی ایک طویل فہرست ہے، ان کے پاس "کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے۔"
انہوں ںے کہا کہ وہ ہمیشہ خطرے میں رہتی ہیں اور انہیں اقتدار میں بھی رہنا ہے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔
فورم