بلوچستان میں 'لاپتا افراد' کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع بولان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران کم عمر بچوں سمیت 11 خواتین 'لاپتا' ہو گئی ہیں۔
ٹوئٹر پر ایک خاتون کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں وہ بولان میں مبینہ فوجی آپریشن اور اس کے بعد خواتین کو جبری طور پر حراست میں لینے کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔
سناز نامی خاتون کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں میری بھابیاں، بولان کے پہاڑی علاقے میں بکریاں چرانے گئیں تو وہاں ایک فوجی آپریشن شروع ہوا۔
سناز نے دعویٰ کیا کہ لاپتا ہونے والی خاتون کا نام دل بخت ہے جب کہ ان کی تین بیٹیوں کے نام در بخت، نور بخت اور عائشہ ہیں جو کہ گزشتہ چار روز سے لاپتا ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حکومت ہماری رشتے دار خواتین کی فی الفور بازیابی کو یقینی بنائیں۔
پاکستانی فوج نے چند روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ بولان میں ایک کارروائی کے دوران کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کے چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جب کہ اس دوران فوج کے دو ایس ایس جی کمانڈو بھی جان کی بازی ہار گئے تھے۔
'عورت مارچ' کی بولان میں خواتین کی مبینہ جبری گمشدگیوں کی مذمت
پاکستان میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم " عورت مارچ" نے بولان میں جاری ایک مبینہ فوجی آپریشن کے دوران خواتین کی غیر قانونی گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کی مذمت کی ہے ۔
عورت مارچ کا کہنا ہے کہ اُنہیں کم از کم 11 خواتین، کم عمر لڑکیوں اور بچوں کی گمشدگی پر تشویش ہے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بولان کے علاقے میں ایک فوجی آپریشن جاری ہے اور اس وقت علاقہ محاصرے میں ہے۔
اُن کے بقول لاپتا ہونے والوں میں سات خواتین اور چھ بچے شامل ہیں۔ لاپتا ہونے والوں میں ایک خاتون رکھیا خان کی اہلیہ ہے جن کو چار سال قبل ہرنائی سے مبینہ طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کی خواتین کی حالیہ غیر قانونی اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں تفصیلات بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل اور پاکستان میں انسانی حقوق کےکمیشن کو فراہم کردی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہماری ، مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو سے بھی بات چیت ہوئی ہے۔
ادھر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خاتون رہنما ماہ رنگ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ "انسداد دہشت گردی کے نام پر گزشتہ 6 روز سے بولان میں آپریشن جاری ہے اس میں اُن کے بقول بے گناہ معصوم بچوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ تاحال لاپتا ہونے والی خواتین کے لواحقین نے ان سے رابطہ نہیں کیا، اگر ان سے رابطہ کیا گیا تو اس معاملے میں عدالت سے رُجوع کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور شہریوں کو لاپتا کرنے کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صوبے میں ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث افراد اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور کسی معصوم یا بے گناہ شہری کو ہراساں نہیں کیا جاتا۔
دوسری جانب بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
ان کے بقول مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو ملک سے باہر ہیں وہ جیسے ہی وطن واپس آئیں گے تو مبینہ طور پر لاپتا ہونے والی خواتین کے لواحقین سے ملاقات کریں گے اور خواتین کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔