افغان فورسز نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے ‘ایف بی آئی’ کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل دہشت گرد تنظیم ‘القاعدہ’ کے سینئر لیڈر ابو محسن المصری کو ہلاک کر دیا ہے۔
افغانستان کے سیکیورٹی ادارے 'افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کا ہفتے کو رات گئے کی گئی ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ المصری کو افغان صوبہ غزنی میں ہونے والے خصوصی آپریشن کے دوران ہلاک کیا گیا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی ادارہ برائے نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم سینٹر کے سربراہ کرس ملر نے بھی المصری کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ المصری کی ہلاکت دہشت گرد تنظیم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ جنہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں مسلسل نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں المصری پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی فنڈنگ اور وسائل مہیا کرنے کے علاوہ امریکی شہریوں کو ہلاک کرنے کی سازش میں بھی ملوث تھے۔
'این ڈی ایس' کے مطابق المصری کو القاعدہ کا نائب کمانڈر سمجھا جاتا تھا۔
المصری کی ہلاکت پر تاحال ایف بی آئی کی طرف سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
المصری، مصری شہری اور حسام عبد الرؤف کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا گزشتہ ماہ کہنا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے لیے کام کرنے والے صرف 200 کے لگ بھگ فعال کارکن رہ گئے ہیں۔
رواں سال نائن الیون کے واقع کو 19 سال مکمل ہو چکے ہیں جس کے بعد امریکہ نے افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکہ مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی باقی ماندہ فورسز کا انخلا کر لے گا۔
طالبان نے بھی معاہدے میں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سر زمین کو بیرونِ ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں دیگر افغان فریقوں سے مذاکرات کریں گے۔
افغان امن عمل کے سلسلے میں گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تاہم مذاکرات کے باوجود افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کا گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان نے طے پانے والے معاہدے کی جزیات پر سختی سے قائم رہتے ہوئے اقدامات کا از سر نو تعین کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
SEE ALSO: امن عمل میں پیش رفت ہوئی لیکن طالبان کے حملے قابل مذمت ہیں: خلیل زادادھر افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کا رواں ماہ جنرل عبدالرزاق کی دوسری برسی کے موقع پر کہنا تھا کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد ملک میں طالبان کی حکمرانی دوبارہ بحال ہو جائے گی۔ وہ لوگ حقائق کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔
افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال کسی بھی حالت میں قابلِ قبول نہیں ہو گی۔