متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین نے بھارتی ٹی وی کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں بھارت کی حکومت سے سیاسی پناہ کی اپیل کی ہے۔ جس کے بعد پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اپیل سنجیدگی سے زیادہ ‘ذہنی اضطراب’ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔
پاکستان خصوصاً شہری سندھ کی نمائندہ جماعت سمجھی جانے والی ایم کیو ایم اگرچہ اب بھی صوبائی اور قومی اسمبلی میں موجود ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت، پارٹی کے بانی سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین 27 سال پہلے پاکستان سے چلے گئے تھے۔ اتنا عرصہ وہ برطانیہ میں بطور شہری مقیم بھی رہے اور پاکستان میں ان کی جماعت فعال بھی رہی۔ لیکن 12 مئی 2007 کو پیش آنے والے پر تشدد واقعات نے پارٹی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت سے کی جانے والی سیاسی پناہ کی اپیل کے پیچھے وہ مقدمات ہیں۔ جن کا سامنا الطاف حسین کو برطانیہ میں اس وقت کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ شاید تبدیلی آئی ہے۔ جس کے بعد الطاف حسین کو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے میں تفتیش کا حصہ بننے سے لے کر منی لانڈرنگ میں نامزدگی اور اب نفرت انگیز تقاریر کرنے جیسے مقدمات کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ اگرچہ آج حالات سازگار نہیں ہیں لیکن الطاف حسین کی ذاتی مقبولیت کم نہیں ہوئی ہے۔
ان کے بقول اگر الطاف حسین کبھی پاکستان آ سکیں تو ایم کیو ایم کی از سر نو تنظیم سازی ان کے لیے مسئلہ نہیں۔
SEE ALSO: الطاف حسین کی پاکستان مخالف بیان بازی میں شدت کیوں؟بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی وجوہات کے سوال پر ایم کیو ایم کے صوبہ سندھ میں سابق مشیر اطلاعات صلاح الدین حیدر کا کہنا ہے کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ الطاف حسین کی جسمانی صحت کیسی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین شدید بیمار ہیں اور شاید ذہنی دباؤ نے انہیں کسی حد تک نفسیاتی بے چینی میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔
صلاح الدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لندن میں ایم کیو ایم کا دفتر مکمل طور پر بند ہو چکا ہے۔ ان کے ساتھی پہلے کی طرح متحرک نہیں ہیں اور فنڈز کی کمی کا شدید سامنا ہے۔ ایسے میں اگلے سال جون میں نفرت انگیز تقریر کے مقدمے ‘ہیٹ اسپیچ کیس’ کی سماعت شروع ہو جائے گی۔ جس سے ان کی سیاسی سرگرمیاں مزید پابندی کا شکار ہو سکتی ہیں۔
بھارتی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کے بارے میں صلاح الدین حیدر کا کہنا تھا کہ ایسی اپیل نہایت نا معقول ہے اور اس کے منفی اثرات پاکستان میں اردو بولنے والی کمیونٹی کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
ان کے بقول ماضی میں بھی بھارت سے مدد لینے جیسے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں الطاف حسین کی اہمیت سے متعلق سوال پر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان آنا اگرچہ ممکن نظر نہیں آتا لیکن اگر ایسا ہوا تو وہ لاکھوں افراد کو اپنا منتظر پائیں گے۔
ایم کیو ایم کے بانی کے حوالے سے تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کے لیے حالات 22 اگست 2013 کی تقریر کے بعد سے ہی خراب ہونے لگے تھے کیونکہ انہوں نے بہت سے اداروں خاص طور پر فوج کے خلاف متنازع الفاظ استعمال کیے اور وہی 'نفرت انگیز تقریر' اب ان کے خلاف مقدمے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ الطاف حسین اگر بھارت میں سیاسی پناہ لینے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے تو وہ باقاعدہ قانونی راسطہ اختیار کرتے نہ کہ ایسے ٹی وی اسکرین پر آ کر اپیل کرتے۔
SEE ALSO: ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین لندن میں گرفتارمظہر عباس کا مزید کہنا ہے کہ یہ تقریر پاکستان کے مخصوص طاقتور حلقوں کے لیے شاید ایک پیغام ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں بھارت منتقلی کا عندیہ نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ الطاف حسین آج بھی شہری سندھ کی سیاست میں اہم کردار ہیں۔ اگر وہ واقعی بھارت چلے جاتے ہیں تو اس سے مکمل طور پر سیاسی تنہائی کا شکار ہوں گے اور پاکستان کی سیاست میں ان کی واپسی نہ ممکن ہو جائے گی۔