کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے بانی قائد الطاف حسین پر اگست 2016 میں نفرت انگیز تقریر کرنے کے کیس میں لندن میں فرد جرم عائد کر دی گئی۔ جس کے بعد انہیں گرفتار کر کے مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سخت شرائط کے تحت انہیں ضمانت پر رہائی مل گئی ہے۔
لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس نے الطاف حسین پر لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کرنے کی تصدیق کی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کمانڈ کے اہل کاروں کے مطابق 66 سالہ شخص نے لوگوں کو تشدد پر اکسا کر دہشت گردی کا ارتکاب کیا تھا، جس پر ان کے خلاف فردجرم عائد کی جا رہی ہے
میٹروپولیٹن پولیس کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق نفرت انگیز تقریر کے الزام میں بانی ایم کیو ایم ضمانت ختم ہونے پر 4 ماہ میں تیسری بار برطانوی پولیس کے سامنے پیش ہوئے۔ ان پر اگست 2016ء میں اشتعال و نفرت انگیز تقریر کے ذریعے کراچی میں لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔
الطاف حسین کو نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے کے الزام کی دفعات عائد کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا اور ان پر ٹیررازم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
کراؤن پراسیکیوشن کا کہنا ہے پولیس کے پاس فرد جرم عائد کرنے کے لئے کافی شواہد موجود ہیں۔
الطاف حسین کو 12 ستمبر کو لندن میں سدک پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا تھا،جہاں ان کی ضمانت میں دوسری بار توسیع کی گئی اور نفرت انگیز تقاریر سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
آج کی گرفتاری کے بعد سخت شرائط کے تحت دی گئی ضمانت میں کہا گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کسی عوامی اجتماع سے خطاب نہیں کر سکتے۔ وہ شام سے صبح تک گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ جب کہ ان کے برطانیہ سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے خلاف تحقیقات جاری رہیں گی۔ انہیں دوبارہ کسی بھی وقت طلب کیا جاسکتا ہے۔
لندن میں موجود سینئر صحافی اطہر کاظمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ الطاف حسین کو آج جب پولیس سٹیشن میں بلایا گیا تو انہوں نے کئی سوالات کے جواب نہیں دیے اور بیشتر سوالوں کے جواب میں وہ نوکمنٹس کہتے رہے۔
اطہر کاظمی کہتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ کراؤن کورٹ میں چلایا جائے گا، کیونکہ دہشت گردی کی دفعات کے باعث یہ مقدمہ کسی اور عدالت میں نہیں چل سکتا۔
اس سے قبل ماضی میں مغربی لندن میں ایک شخص کے خلاف نفرت انگیز تقاریر پر جب مقدمہ چلایا گیا تھا تو اسے تین سال کی سزا ہوئی تھی، لیکن اس کیس میں بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ الطاف حسین کی تقریر کے نتیجے میں آیا کوئی جانی نقصان ہوا یا املاک کو نقصان پہنچایا گیا؟ ان تمام معاملات اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیس کا فیصلہ کیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کے وکلا کا کہنا ہے کہ اس کیس میں الطاف حسین کو سزا نہیں ہو گی جب کہ پراسیکیوشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس کافی ثبوت موجود ہیں۔
اطہر کاظمی کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ پر گرفت کافی حد تک ڈھیلی پڑ چکی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کی قیادت نے بھی ان سے فاصلے بڑھا دیے ہیں۔ اس کیس میں اگر انہیں سزا ہوئی تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم لندن کی سیاست بھی ختم ہو سکتی ہے۔