آتشی اسلحہ سے متعلق زیادہ سخت قوانین کے مطالبات اس نوعیت کے واقعات پر عمومی ردعمل کا حصے رہے ہیں۔
امریکہ میں کانگریس کی عمارت کے قریب پیر کو فائرنگ کے واقعہ پر امریکی عوام غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ رنج کے جذبات عام ہیں جب کہ حیرت زدہ افراد کی تعداد کہیں کم۔
مسلح حملہ آور کے سابقہ پڑوسی سمیت کچھ امریکیوں نے ملک میں ہتھیاروں کی بہتات کو حالیہ حملے کی طرز کے واقعات کی وجہ قرار دیا ہے۔
حملہ آور کے پڑوسی نے کہا کہ واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اُس پر اُنھیں افسوس ہے۔
’’اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں نوجوان افراد کے پاس بہت زیادہ اسلحہ موجود ہیں۔‘‘
اسلحہ سے متعلق زیادہ سخت قوانین کے مطالبات اس نوعیت کے واقعات پر عمومی ردعمل کا حصے رہے ہیں۔ مگر اسلحہ رکھنے کے حق کی حمایت کرنے والے افراد ان مطالبات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلحہ کی تعداد پر قابو پانا قتل و غارت سے بچنے کا طریقہ نہیں۔
اسلحہ سے متعلق سخت قوانین کے مخالفین کا موقف ہے کہ ہتھیار محض آلات ہوتے ہیں اور اگر اسلحہ رکھنا غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو جو لوگ قتل کی جانب مائل ہیں وہ دیگر طریقوں کا استعمال کریں گے، اور سخت قوانین صرف اُن لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے جنھیں اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ کی ضرورت ہے۔
لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے ایڈ گووارا نے کہا کہ ’’اسلحہ لوگوں کو نہیں مارتا۔ لوگ خود لوگوں کو مارتے ہیں۔ اُنھیں (قاتلوں کو) کسی کو مارنے کے لیے اسلحہ کی ضرورت نہیں، وہ خنجر، پیچ کس یا اپنی مرضی کے کسی بھی اوزار کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ نقطہ نظر رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ہتھیار در اصل تحفظ میں اضافہ کرتے ہیں کیوں کہ لوگ کسی مسلح شخص پر جوابی فائرنگ کرکے اُس کو قلیل عرصہ میں متعدد افراد کو ہلاک کرنے سے روک سکتے ہیں۔
ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کے رہائشی رابرٹ نے کہا کہ ’’ہمیں مزید اسلحہ چاہیئے، مزید افراد جو اسلحہ سے لیس ہوں، مزید قوانین جن کے تحت لوگوں کے پاس اسلحہ ہو۔‘‘
دوسری جانب کیلی فورنیا کی رہائشی نیکول لونا جیسے خیالات رکھنے والے افراد کی رائے میں ذہنی صحت سے متعلق بہتر سہولتوں کی مدد سے تشدد کے واقعات کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے کیوں کہ کئی واقعات میں مسلح حملہ آور ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
لونا نے کہا کہ ’’بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور وہ ضروری معالجہ سے محروم ہیں۔‘‘
حملہ آور ذہنی امراض میں مبتلا ہو یا نہیں، اس کا نشانہ بننے والوں کو اس سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہو گی۔
ڈیبرا فائن کو سینٹ مونیکا میں ہوئے ایک حملے کے دوران پانچ گولیاں لگی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ مسلح افراد کی سوچ کیا ہوتی ہے۔
’’میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے 15 سے 20 فٹ کے فاصلے سے اُس (حملہ آور) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس (جسم) میں کوئی انسان موجود نہیں تھا، بالکل نہیں۔‘‘
حال میں پیس آنے والے فائرنگ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہتھیاروں کو انتہائی کم وقت میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتے ہین وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم لوگوں کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا، مگر ایسا حل تلاش کرنا جو تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو بدستور ایک مشکل عمل ہے۔
مسلح حملہ آور کے سابقہ پڑوسی سمیت کچھ امریکیوں نے ملک میں ہتھیاروں کی بہتات کو حالیہ حملے کی طرز کے واقعات کی وجہ قرار دیا ہے۔
حملہ آور کے پڑوسی نے کہا کہ واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اُس پر اُنھیں افسوس ہے۔
’’اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں نوجوان افراد کے پاس بہت زیادہ اسلحہ موجود ہیں۔‘‘
اسلحہ سے متعلق زیادہ سخت قوانین کے مطالبات اس نوعیت کے واقعات پر عمومی ردعمل کا حصے رہے ہیں۔ مگر اسلحہ رکھنے کے حق کی حمایت کرنے والے افراد ان مطالبات سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلحہ کی تعداد پر قابو پانا قتل و غارت سے بچنے کا طریقہ نہیں۔
اسلحہ سے متعلق سخت قوانین کے مخالفین کا موقف ہے کہ ہتھیار محض آلات ہوتے ہیں اور اگر اسلحہ رکھنا غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو جو لوگ قتل کی جانب مائل ہیں وہ دیگر طریقوں کا استعمال کریں گے، اور سخت قوانین صرف اُن لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے جنھیں اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ کی ضرورت ہے۔
لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے ایڈ گووارا نے کہا کہ ’’اسلحہ لوگوں کو نہیں مارتا۔ لوگ خود لوگوں کو مارتے ہیں۔ اُنھیں (قاتلوں کو) کسی کو مارنے کے لیے اسلحہ کی ضرورت نہیں، وہ خنجر، پیچ کس یا اپنی مرضی کے کسی بھی اوزار کا استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ نقطہ نظر رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ ہتھیار در اصل تحفظ میں اضافہ کرتے ہیں کیوں کہ لوگ کسی مسلح شخص پر جوابی فائرنگ کرکے اُس کو قلیل عرصہ میں متعدد افراد کو ہلاک کرنے سے روک سکتے ہیں۔
ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کے رہائشی رابرٹ نے کہا کہ ’’ہمیں مزید اسلحہ چاہیئے، مزید افراد جو اسلحہ سے لیس ہوں، مزید قوانین جن کے تحت لوگوں کے پاس اسلحہ ہو۔‘‘
دوسری جانب کیلی فورنیا کی رہائشی نیکول لونا جیسے خیالات رکھنے والے افراد کی رائے میں ذہنی صحت سے متعلق بہتر سہولتوں کی مدد سے تشدد کے واقعات کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے کیوں کہ کئی واقعات میں مسلح حملہ آور ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
لونا نے کہا کہ ’’بہت سے لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے اور وہ ضروری معالجہ سے محروم ہیں۔‘‘
حملہ آور ذہنی امراض میں مبتلا ہو یا نہیں، اس کا نشانہ بننے والوں کو اس سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ہو گی۔
ڈیبرا فائن کو سینٹ مونیکا میں ہوئے ایک حملے کے دوران پانچ گولیاں لگی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کئی لوگ سوال کرتے ہیں کہ مسلح افراد کی سوچ کیا ہوتی ہے۔
’’میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے 15 سے 20 فٹ کے فاصلے سے اُس (حملہ آور) کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس (جسم) میں کوئی انسان موجود نہیں تھا، بالکل نہیں۔‘‘
حال میں پیس آنے والے فائرنگ کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہتھیاروں کو انتہائی کم وقت میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتے ہین وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم لوگوں کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے کچھ کرنا ہوگا، مگر ایسا حل تلاش کرنا جو تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو بدستور ایک مشکل عمل ہے۔