لبنان کی صورتِ حال پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب؛ 'صرف امریکہ ہی جنگ بندی ممکن بنا سکتا ہے'

فائل فوٹو

  • حزب اللہ اور اسرائیل میں لڑائی پر لبنان کا کہنا ہے کہ صرف امریکہ ہی جنگ بندی ممکن بنا سکتا ہے۔
  • حزب اللہ نے اسرائیل کے حملے میں اپنے ایک اہم کمانڈر کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔ ہلاک ابراہیم قبیسی حزب اللہ کے میزائل اور راکٹ گروپ کے کمانڈر تھے۔
  • لبنان کے جنوبی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں شہری بیروت میں اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں پناہ لے رہے ہیں۔
  • اسرائیلی فورسز نے بدھ کی صبح سمندر کے ساتھ ساحلی علاقے جییہ میں جنگی طیاروں سے حملہ کیا۔
  • برطانیہ نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے اور قبرص میں 700 فوجی تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
  • اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بدھ کو ہو رہا ہے جس میں خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔

ویب ڈیسک _ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کے بیروت پر حملے میں اپنے اہم کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جب کہ لبنان کا کہنا ہے کہ صرف امریکہ ہی جنگ بندی ممکن بنا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حزب اللہ نے بدھ کی صبح تصدیق کی ہے کہ منگل کو بیروت پر اسرائیلی حملے میں اس کے سینیئر کمانڈر ابراہیم قبیسی کی موت ہوئی ہے۔

ابراہیم قبیسی حزب اللہ کے میزائل اور راکٹ گروپ کے کمانڈر تھے۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ ابراہیم قبیسی اسرائیل پر میزائل حملوں میں ملوث تھے جب کہ انہوں نے سال 2000 میں اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس حملے میں تین اسرائیل فوجی اغوا اور ہلاک ہوئے تھے۔

مقامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مضافات میں ایک چھ منزلہ عمارت پر فضائی بمباری کی تھی۔ بمباری میں اس عمارت کی تین منزلیں مکمل تباہ ہو گئی تھیں۔

لبنان کے وزیرِ صحت فراس عبیاد نے قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ پیر کی صبح سے جاری اسرائیل کے حملوں میں لگ بھگ 569 شہری ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 1900 زخمیوں کو اسپتالوں میں علاج کے لیے منتقل کیا گیا ہے۔

حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی فوج کی حالیہ کارروائی اور لبنان کی عسکری تنظیم کی جانب سے اسرائیل میں کئی علاقوں پر سیکڑوں میزائل داغنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید کشیدہ ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے سرحدی جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ لیکن اب دونوں جانب سے حملوں میں شدت آ چکی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب

لبنان کی کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر فرانس کی درخواست پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بدھ کو طلب کر لیا گیا ہے۔

اجلاس میں خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ لبنان جنگ کے دہانے پر ہے۔ ان کے بقول لبنان کے عوام، اسرائیل کے لوگ اور پوری دنیا لبنان کو ایک اور غزہ بننے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

برطانیہ کا فوج مشرقِ وسطیٰ بھیجنے کا فیصلہ

غزہ جنگ کے دوران اسرائیل اور حزب اللہ میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد برطانیہ نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔

برطانیہ نے بحیرۂ روم میں جزیرہ نما ملک قبرص میں 700 فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ برطانوی شہریوں کے انخلا میں معاونت کر سکیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

اسرائیلی فوج کا خفیہ سائبر وار فیئر یونٹ کیا کام کرتا ہے؟

لبنان کے جنوبی علاقوں سے انخلا

لبنان کے جنوبی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں شہری بیروت میں اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں پناہ لے رہے ہیں۔ ان عارضی پناہ گاہوں میں متاثرین کو خوراک اور پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

لبنان کے وزیرِ خارجہ عبد اللہ بو حبیب کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں لگ بھگ پانچ لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ لبنان کے وزیرِ اعظم جلد ہی اس صورتِ حال پر امریکی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

اسرائیل نے گزشتہ تین دن میں لبنان کے بیشتر علاقوں میں فضائی حملے کیے ہیں۔

بدھ کی صبح بھی اسرائیلی فورسز نے سمندر کے ساتھ ساحلی علاقے جییہ میں جنگی طیاروں سے حملہ کیا۔

SEE ALSO: لبنان: دو روز کے دوران اسرائیلی حملوں میں 558 ہلاکتیں، ہزاروں افراد کی نقل مکانی

اسرائیلی فوج نے جس علاقے کو نشانہ بنایا ہے وہ سرحد سے لگ بھگ 75 کلو میٹر اندر ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ فورسز نے منگل کو لبنان میں حزب اللہ کی عسکری املاک کو نشانہ بنایا ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گلینٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں سے حزب اللہ کمزور ہوئی ہے اور اس کو مزید کمزور کیا جائے گا۔

حزب اللہ کے اسرائیل پر حملے

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘حزب اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے منگل کو اسرائیل میں آٹھ مقامات کو نشانہ بنایا جن میں بارودی مواد بنانے والی ایک فیکٹری بھی شامل ہے۔

اسرائیل کی یہ فیکٹری لبنان کی سرحد سے لگ بھگ 60 کلو میٹر دور زخرون یعکوف کے علاقے میں واقع ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے حزب اللہ کے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لبنانی عسکری تنظیم نے اسرائیل پر منگل کو 300 میزائل داغے تھے جس کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں سمیت چھ افراد زخمی ہوئے۔

اسرائیل کی فوج کہہ چکی ہے کہ اس کا لبنان میں فوری طور پر زمینی کارروائی کا ارادہ نہیں ہے۔

اسرائیلی فوج کی غزہ سے منتقلی

اسرائیل اپنی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کو غزہ سے شمالی سرحد پر منتقل کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے پاس لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل ہیں جن میں سے بعض میزائل ایسے بھی ہیں جو کہ اسرائیل میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مطابق حزب اللہ گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل پر لگ بھگ 9000 میزائل داغ چکی ہے۔

گزشتہ ہفتے لبنان میں حزب اللہ کے زیرِ استعمال ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکی سمیت کمیونی کیشن کے دیگر آلات میں دھماکے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں 39 افراد ہلاک اور 2800 زخمی ہوئے تھے۔ لبنان نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا البتہ اسرائیل نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

SEE ALSO: پینٹاگون مشرق وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ بڑھ جانے پر کم تعداد میں اضافی امریکی فوجی کیوں بھیج رہا ہے؟

ان دھماکوں کے بعد حزب اللہ نے اسرائیل پر سیکڑوں راکٹ داغنا شروع کر دیے تھے۔

یاد رہے کہ حزب اللہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی حامی ہے اور غزہ جنگ کے دوران اس نے کئی مرتبہ اسرائیل پر راکٹ داغے ہیں۔

غزہ میں لگ بھگ ایک سال پہلے سات اکتوبر 2023 کو اس وقت جنگ کا آغاز ہوا تھا جب غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ڈھائی سو کو حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔

اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ کا محاصرہ کرکے حماس کے خاتمے اور تمام یرغمالوں کی بازیابی تک جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جو اب بھی جاری ہے۔

غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ ایک سال میں حماس کے حملوں میں لگ بھگ 41 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ زخمی ہوئے ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔