|
اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ عسکریت پسند تنظیم میں جنگ بندی کے معاہدے کی خبروں سے غزہ کے لوگوں میں یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ ان کی محصور پٹی اب اسرائیلی عسکری کارروائیوں کا واحد ہدف ہو گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے غزہ میں اسرائیل نے حماس کے خلاف مسلسل کارروائیاں جاری رکھی ہیں اور وہاں فوری جنگ بندی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔
ایران کی حمایت یافتہ اور لبنان میں فعال تنظیم حزب اللہ نے پچھلے سال اکتوبر میں اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر میزائل داغنا شروع کیے تھے۔
گزشتہ دو مہینوں میں لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کی لڑائی میں شدت آئی ہے جبکہ اسرائیل نے فضائی حملے تیز کر دیے ہیں اور لبنان کے جنوب میں زمینی فوجیں بھیجی ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ اسرائیل پر راکٹ فائر کر رہا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت یافتہ منصوبے کی منظوری کے لیے تیار نظر آرہا ہے۔ منگل کو اسرائیلی سلامتی کابینہ کا اجلاس ہورہا ہے جب کہ لبنان کے وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب نے امید ظاہر کی ہے کہ منگل کی رات تک جنگ بندی ہونے کا امکان ہے۔
SEE ALSO: لبنان-اسرائیل جنگ بندی کےمذاکرات میں پیش رفت، حملے بھی جاریادھر ایسے وقت میں جب سفارت کاری لبنان پر مرکوز ہے، فلسطینی 14 ماہ طویل تنازعے کے بعد دنیا کی طرف سے مایوسی محسوس کر رہے ہیں۔ اس تنازعے کے دوران غزہ کی پٹی تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق غزہ میں وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں 44,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ کے باشندے عبدالغنی نے، جو پانچ بچوں کے والد ہیں، رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں دنیا سے ناراض ہوں جو دو خطوں میں ایک سا حل لانے میں ناکام رہی ہے۔ شاید، غزہ کے لیے کوئی اور ڈیل ہو، ہو سکتا ہے۔"
غزہ میں لڑائی کے خاتمے کا معاہدہ نہ ہوتے ہوئے اسرائیل-حزب اللہ جنگ بندی حماس کے لیے ایک دھچکا ہو گی۔
فلسطینی تنظیم حماس کے رہنماؤں کو امید تھی کہ لبنان میں پھیلتی جنگ اسرائیل پر ایک جامع جنگ بندی کی جانب پیش رفت کے لیے دباؤ ڈالے گی۔
SEE ALSO: حزب اللہ نے وسطی اسرائیل پر 250 راکٹ داغ دیے، متعدد افراد زخمیقبل ازیں، حزب اللہ نے اصرار کیا تھا کہ وہ غزہ کی جنگ ختم ہونے تک جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوگا لیکن اب اس نےیہ شرط ترک کر دی ہے۔
اس تناظر میں غزہ شہر کے ایک تاجر تمر البرائی نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہمیں بہت امیدیں تھیں کہ حزب اللہ آخر تک ثابت قدم رہے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکے۔"
البرائی نے، جو کہ غزہ کے زیادہ تر لوگوں کی طرح لڑائی کے دوران بے گھر ہو چکے ہیں، مزید کہا کہ فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیلی فوج اب غزہ میں آزادانہ کارروائیاں کر سکے گی۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری خوفناک صورت حال کے خاتمے کی فوری کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔
اسرائیل نے اسلحے سے لیس حزب اللہ کے تجربہ کار رہنما سید حسن نصر اللہ اور ان کے جانشین کو حالیہ مہینوں میں ہلاک کر دیا تھا۔ اب جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ممکن ہے کہ گروپ کے کچھ کمانڈر اسرائیلی کارروائی سے بچ جائیں۔۔
اس صورت حال کے مقابل، اسرائیل نے حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ حماس کے پچھلے سال 7 التوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملے میں 1200 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رائٹرز سے غزہ میں جنگ سے تباہی پر بات کرتے ہوئے چھ بچوں کی ماں 56 سالہ زکیہ رزیک نے کہا،"بہت ہو گیا، ہم تھک چکے ہیں۔ جنگ بند کرنے سے پہلے اور کتنے لوگوں کو مرنا پڑے گا؟ غزہ کی جنگ بند ہونی چاہئیے، ہر روز لوگوں کا صفایا کیا جا رہا ہے، بھوکا مارا جا رہا ہے اور بمباری کی جا رہی ہے۔"
خیال رہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے خلاف جنگ میں احتیاط برتتا ہے لیکن حماس کے جنگجو شہری مقامات پر چھپ کر شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
منگل کے روز اسرائیل اور حزب اللہ میں جنگ بندی میں پیش رفت کی خبروں کے دوران اسرائیل نے بیروت میں فضائی حملے تیز کردیے۔
رائٹرز کے مطابق منظوری کے بعد اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی بدھ سے نافذ العمل ہو سکتی ہے۔
دریں اثنا، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر رضامند ہو جائے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس سلسلے میں "مزید کوئی بہانہ نہیں ہونا چاہئیے۔"
SEE ALSO: آئی سی سی کے اسرائیلی اورحماس رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری: آگے کیا ہو سکتا ہے؟اٹلی میں ترقی یافتہ ملکوں کے جی سیون گروپ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل بوریل نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل لبنان سرحد پر کئی مہینوں کی شدید لڑائی سے بے گھر ہونے والے شہریوں کے لیے جنگ بندی "بہت ضروری" ہے۔
یورپین خارجہ پالیسی کے چیف نے اس امید کا اظہار کیا کہ اسرائیی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت بغیر کوئی نئی شرائط لگائے جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہو جائے گی۔
امریکی حکام نے امید ظاہر کی ہےکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے۔
قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اس ضمن میں بیروت میں امریکی ایلچی آموس ہاکسٹین کی قیادت میں ہونے والی حالیہ بات چیت کو "تعمیری" قرار دیتے ہوئے کہا، "ہمیں یقین ہے کہ اس کی رفتار بہت مثبت سمت میں جا رہی ہے۔"
(اس خبر میں شامل زیادہ تر مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)