بھارت نے لداخ میں چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے پیشِ نظر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے علاوہ بھوٹان اور نیپال کے ساتھ اپنی سرحد پر بھی نگرانی سخت کر دی ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق وزارتِ داخلہ نے منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد بھارتی سرحدوں کی حفاظت پر متعین فورسز کو الرٹ کر دیا ہے۔
تازہ صورتِ حال کے پیش نظر سیکرٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا اور آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے نے میانمار کا دورہ بھی مؤخر کر دیا ہے۔ وہ بدھ کو دورے پر روانہ ہونے والے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی طویل عرصے تک قائم رہ سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق انڈو تبتن بارڈر فورس (آئی ٹی بی پی) کو اتراکھنڈ، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، لداخ اور سکم میں الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جب کہ نیپال اور بھوٹان کی سرحدوں کی حفاظت پر تعینات سشتر سیما بل (ایس ایس بی) کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے پر چینی فوج کی مبینہ مداخلت کی کوشش ناکام بنانے کے بعد بھارتی فوج نے وہاں کی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل متعدد چوٹیوں پر اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔ جھیل کے آس پاس کے اہم مقامات پر اہل کاروں اور ہتھیاروں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
بھارت نے منگل کو کہا تھا کہ اس نے چینی فوجیوں کے مبینہ اشتعال انگیز اور جارحانہ اقدامات کا معاملہ بیجنگ کے سامنے اٹھایا ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں کو قابو میں رکھے۔
وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق 31 اگست کو جب دونوں ممالک میں کمانڈر کی سطح پر مذاکرات ہو رہے تھے تو اس وقت بھی چینی فوجیوں نے یک طرفہ طور پر سرحد کو بدلنے کی کوشش کی، جسے بھارتی فوج نے ناکام بنا دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین نے اس الزام کی تردید کی ہے اور بھارت پر جارحیت کا الزام عائد کیا ہے۔
بھارت میں چینی سفارت خانے کے ترجمان جی رونگ نے اپنے ایک بیان میں بھارت پر اشتعال انگیزی اور چین کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے نئی دہلی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے ان فوجیوں کو واپس بلائے جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے ایل اے سی عبور کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں کو قابو میں رکھے اور ایسے اقدامات سے باز رہے جو صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنیں۔
دوسری جانب چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ای نے بھی کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ تاہم بیجنگ سرحد پر امن و سلامتی کے قیام کے لیے پر عزم ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک چین بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن بھارت نے جس طرح پینگانگ جھیل کے پاس کی بلند چوٹیوں پر قبضہ کیا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اب بھارت چین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق دونوں ممالک میں مذاکرات اس لیے ناکام ہو رہے ہیں کہ چین کا اصرار ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی برابر مسافت تک پیچھے جائیں، جب کہ بھارت کا خیال ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو اس سے بھارت کو نقصان ہو گا۔ کیوں کہ بھارت کو اپنے ہی علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
بھارت چین کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس کے فوجی پیچھے جا چکے ہیں۔
چینی امور کے ماہر پروفیسر بلی رام کا کہنا ہے کہ 15 جون کو ہونے والا ٹکراؤ، جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے، جھیل کے شمالی کنارے پر ہوا تھا اور تازہ جھڑپ جنوبی کنارے پر ہوئی ہے۔ جو آئندہ پیش آنے والے مزید واقعات کی جانب اشارہ ہے۔
بلی رام نے کہا کہ بھارت نے جنوبی کنارے کی بلند چوٹیوں پر جو قبضہ کیا ہے وہ آگے چل کر ایک نیا تنازع بن سکتا ہے۔
ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہوا ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ دوسرے سیکٹرز میں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور مزید مقامات متنازع بن سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ بھارت کی جانب سے ایک اشارہ ہے کہ چین بھارتی علاقے میں داخل ہونے کی جتنی کوشش کرے گا۔ نئی دہلی اسے ناکام بنائے گا اور سرحد کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی اس کی کوششوں کو بھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
پروفیسر بلی رام نے مزید کہا کہ چین کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ چینی فوجیوں کا وہاں موسم سرما میں بھی جمے رہنے کا ارادہ ہے۔ بھارت کو بھی اس کا اندازہ ہے اور اس لیے اس نے بھی تیاری کر لی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں ابھی تک جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ ناکام رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ صورتِ حال سنگین ہے۔
ان کے مطابق بھارت کی فوج کسی بھی صورتِ حال کے لیے تیار ہے۔
خیال رہے کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام رہتے ہیں تو فوجی کارروائی کا متبادل موجود ہے۔
دونوں ممالک میں بدھ کو بھی کمانڈرز کی سطح کے مذاکرات ہوئے ہیں۔