|
فلسطینی عسکری تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں جاری جنگ کو ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے۔ اس جنگ نے جہاں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا ہے وہیں ماہی گیروں کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر غیر متوقع دہشت گرد حملے کے بعد سے اسرائیل کی غزہ میں کارروائی جاری ہے۔
اس مسلسل جنگ کے دوران غزہ کے ماہی گیروں پر سمندر میں جانے پر بھی پابندی عائد ہے۔
اب یہ ماہی گیر سمندر میں جانے کے بجائے روز ساحل پر ہی جال بچھا کر اس امید پر وہاں جاتے ہیں کہ ساحل سے ہی کچھ مچھلیاں پکڑ سکیں اور گھر کے افراد کے لیے کسی حد تک خوراک کا بندوبست کر سکیں۔
خان یونس کے ابراہیم نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔‘‘
ان کے بقول ’’غزہ میں خوراک نہیں ہے، ہمیں کچھ نہیں مل رہا۔ شروع میں تو پھر تھوڑا بہت کھانے کو مل جاتا تھا۔ لیکن اب کچھ نہیں ملتا۔''
ابراہیم ماہی گیر ہیں اور اب وہ روز اس امید پر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ لے جا سکیں۔
ان کے مطابق ان کے پاس شازو نادر ہی کوئی مچھلی بچتی ہے جو وہ بیچ سکیں۔
جنگ سے پہلے غزہ کے لوگوں کے لیے ماہی گیری ایک اہم پیشہ تھا اور لوگ مچھلیاں بیچ کر اپنا گھر چلاتے تھے۔
اسرائیلی پابندیوں اور مسلسل لڑائی کی وجہ سے غزہ تک بہت کم امداد پہنچ رہی ہے۔ اس ساحلی پٹی پر بسنے والے شہریوں کے پاس کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔
غزہ کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اسرائیلی فورسز کے اہلکار ان کی کشتیوں پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔
غزہ کے ماہی گیروں پر عائد پابندی کے بارے میں اسرائیل کی فوج نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر غیر متوقع دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق جنگ میں تقریباً 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرزز' سے لی گئی ہیں۔