پاکستان کے معروف ٹی وی میزبان اور سیاست دان عامر لیاقت حسین جمعرات کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔اُنہوں نے میڈیا اور سیاست میں اپنے کریئر کے دوران شہرت کا سفر تنازعات کے ساتھ طے کیا۔
وہ پانچ جولائی 1971 کو سیاست دان شیخ لیاقت حسین اور کالم نگار محمودہ سلطانہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے نانا سردار علی صابری معروف صحافی اور پاکستان کے قیام کی تحریک کے کارکن تھے۔
عامر لیاقت حسین نے عملی زندگی کا آغاز کراچی میں صحافت سے کیا۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے محمد ثاقب سے بات کرتے ہوئے ان کے قریبی ساتھی اور بچپن کے دوست صحافی افضل پرویز نے بتایا کہ عامر لیاقت بعد میں روزنامہ پرچم میں "پوسٹ مارٹم" کے نام سے کالم لکھنے لگے۔
ایک بار سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بارے میں متنازع بات لکھنے پر پولیس ان کو گرفتار کرنے کے درپے ہوگئی۔عامر لیاقت گرفتاری سے بچنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں وہ الطاف حسین کے بہت قریب ہوگئے۔ الطاف حسین ان کی تحریروں کو بہت پسند کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ وطن واپس آئے اور پاکستان میں جب نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو عامر لیاقت حسین جیو ٹی وی کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے جیو ٹی وی سے بطور نیوز کاسٹر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔2002 میں مذہبی پروگرام ’عالم آن لائن‘ کے میزبان کے طور پر عامر لیاقت حسین نے علیحدہ شناخت بنائی۔ پاکستان کی ٹی وی انڈسٹری میں یہ ایک رجحان ساز پروگرام تھا جس نے انہیں بے پناہ مقبولیت دی۔
اپنے دورِ طالب علمی میں عامر لیاقت حسین اچھے مقرر رہے۔ ان کے والد شیخ لیاقت حسین مسلم لیگ سے منسلک رہے تھے لیکن بعدازاں وہ متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہوگئے۔ 2002 میں عامر لیاقت حسین بھی ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور بنے۔
سیاسی تنازعات
اپنی سیاسی زندگی میں عامر لیاقت حسین اس وقت پہلی بار ایک تنازع کی وجہ سے خبروں میں آئے جب انہوں نے 2007 میں برطانوی مصنف سلمان رشدی کو توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کرنے کا بیان دیا۔ اس بیان کے بعد ان پر شدید تنقید ہوئی۔ بعدازاں عامر لیاقت حسین نے وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔
مبینہ طور پر سلمان رشدی کو قتل کرنے اور پاکستان میں لال مسجد آپریشن سے متعلق ان کے بیانات کی وجہ سے ایم کیو ایم نے ان سے استعفی لے لیا تھا۔ بعد ازاں 2008 میں ایم کیو ایم نے عامر لیاقت حسین کو پارٹی سے نکال دیا۔
رمضان ٹرانسمیشن
اس کے بعد کے برسوں میں رمضان ٹرانسمیشن ان کی شہرت کا سب سے نمایاں حوالہ بنی۔ 2010 میں عامر لیاقت حسین جیو ٹی وی چھوڑ کر اے آر وائے چینل میں چلے گئے اور وہاں رمضان ٹرانسمیشن شروع کی۔ 2012 میں وہ ایک بار پھر جیو ٹی وی واپس آگئے اور 2014 میں انہوں نے ’انعام گھر‘ کے نام سے گیم شو کا آغاز کیا۔
اس کے بعد وہ ایکسپریس اور پھر ایک بار جیو سے منسلک ہوئے اور 2017 میں وہ بول نیوز نیٹ ورک میں شامل ہوگئے جہاں انہوں نے ’ایسا نہیں چلے گا‘ کے نام سے حالات حاضرہ پر تبصروں کے پروگرام کا آغاز کیا۔
اس شو میں متعدد بار نفرت انگیزی اور متنازع بیانات کی وجہ سے انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے قبل احمدیہ جماعت کے خلاف منتازع بیانات اور لائیو ٹی وی شو میں لاوارث نوزائیدہ بچوں کو گود دینے پر بھی انسانی حقوق کی تنظیموں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا تھا کہ لاوارث بچوں کو گود لینے والے والدین کی شناخت چھپانا ضروری تھا کیوں کہ بعدازاں ان کی شناخت کے اظہار سے انہیں اور گود لیے گئے بچے کو سماجی سطح پر منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مارچ 2017 میں حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ’ایسا نہیں چلے گا‘ شو میں عامر لیاقت کے بیانات پر کارروائی نہ کرنے حکومتِ پاکستان کے نام خط میں تشویش کا اظہار کیا۔
بعدازاں 12 دسمبر 2017 کو پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے عامر لیاقت پر ہر طرح کے میڈیا پلیٹ فارم پر آنے پر پابندی عائد کردی۔ 12 فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے یہ پابندی ختم کردی تھی۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے تبصروں اور بیانات کے باعث تنازعات میں گھرے رہے۔
دوبارہ سیاست کے میدان میں
ایم کیو ایم سے راہیں جدا ہونے کے بعد بھی عامر لیاقت 2008 سے 2018 تک سیاست سے کسی حد تک دور رہنے کے باوجود بھی ٹی وی پر چھائے رہے۔ لیکن انہوں نے کبھی ایم کیو ایم سے اپنی ہمدردیاں چھپائیں نہیں اور وہ اکثر پارٹی رہنماوں کے ساتھ نظر آتے تھے۔
عامر لیاقت ایک بار پھر 2016 میں اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے متحرک ہوئے۔ اگست 2016 میں کراچی میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے کراچی میں تقریر کے دوران پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے اور نجی ٹی وی چینل پر حملے کا اعلان کیا۔ عامر لیاقت حسین پر بھی اس حملے میں شریک ہونے کے الزام میں 2017 میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مارچ 2018 میں ایک بار پھر عامر لیاقت حسین کی میدانِ سیاست میں باقاعدہ واپسی ہوئی اور اس بار انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی اور اسے اپنی آخری منزل قرار دیا۔
جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں عامر لیاقت حسین پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کراچی سے رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔
تحریکِ انصاف کے ساتھ بھی عامر لیاقت کا سیاسی سفر اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ حکومت بننے کے بعد متعدد بار عامر لیاقت نے پارٹی قیادت کی جانب سے عدم توجہی کی شکایت کی اور ان کی پارٹی سے علیحدگی کی چہ مگوئیاں بھی گردش میں رہیں۔
وہ خود بھی کئی مواقع پر پارٹی سے اپنی شکایات کا اظہار کرتے رہے۔ اکتوبر 2021 میں انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں اس پر عمل نہیں کیا۔
تاہم رواں برس اپریل میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس سے قبل ہی انہوں نے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں۔
وہ تحریکِ انصاف کے ان منحرف ارکان میں شامل تھے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کے لیے ہونے والی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا اور نہ ہی پارٹی قیادت کے فیصلے کے مطابق اسمبلی سے استعفی دیا۔
SEE ALSO: طوبیٰ انور سے علیحدگی کے بعد عامر لیاقت حسین نے تیسری شادی کر لینجی زندگی کے تنازعات
سیاست اور میڈیا میں اپنے کریئر کی طرح عامر لیاقت اپنی نجی زندگی کے تنازعات کی وجہ سے خبروں میں رہے۔
اپنی زندگی میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے تین شادیاں کیں۔ پہلی شادی سیدہ بشریٰ اقبال سے کی جس کا اختتام طلاق پر ہوا۔ اس شادی سے ان کے دو بچے بھی ہیں۔ جون 2018 میں عامر لیاقت نے طوبی انور سے دوسری شادی کی تصدیق کی، لیکن کچھ عرصے بعد ان کی علیحدگی ہوگئی۔
رواں برس فروری میں انہوں نے دانیہ شاہ سے شادی کا اعلان کیا۔ اس کے تین ماہ بعد ہی مئی میں ان کی تیسری بیوی دانیہ عامر نے علیحدگی کے لیے عدالت سے رجوع کرلیا۔
ان کی تیسری بیوی دانیہ نے عامر لیاقت حسین پر تشدد اور منشیات کے استعمال کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ عامر لیاقت حسین نے نہ صرف ان بیانات کی تردید کی بلکہ دل برداشتہ ہوکر ملک چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کے ملک چھوڑنے سے متعلق سوشل میڈیا پرمتعلق چہ مگوئیاں بھی کی جارہی تھیں۔
جمعرات کو پہلے ان کی طبیعت کی ناسازی کی خبریں آئیں اور اس کے بعد انتقال کی تصدیق ہوگئی۔ عامر لیاقت حسین کی موت کی وجہ کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
انہوں نے اپنی ہنگامہ خیز زندگی میں خوب شہرت سمیٹی۔ ان کے لاکھوں مداح اور ووٹر تھے لیکن جمعرات کو جب عامر لیاقت اپنے آبائی گھر میں انتقال ہوا تو وہ تنہا تھے۔
سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ
اپنی زندگی میں بھی کئی مواقع پر ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہنے والے عامر لیاقت حسین اپنے انتقال پر بھی ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ رہے۔
ان کے مداحوں، ناقدین، سیاست و صحافت سے تعلق رکھنے والے رفقائے کار اور عام صارفین نے بھی ان کے دنیا سے جانے پر تبصرے کیے۔
عامر لیاقت حسین نے سیاسی سفر کا آغاز متحدہ قومی موومنٹ سے کیا تھا۔ اس جماعت کے بانی الطاف حسین نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں ان کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عامر لیاقت نے میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ جو کیا اب وہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے۔
میڈیا میں عامر لیاقت کے دیرینہ ساتھ ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے کراچی میں بیورو چیف فیصل حسین نے لکھا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت سے 1993 میں روزنامہ ’پرچم‘ سے تعلق قائم ہوا۔
انہوں نے لکھا کہ بے پناہ محنتی ، وسیع المطالعہ اور خواب دیکھنے والے انسان تھے لاتعداد خوبیاں اور بہت سی انسانی کمزوری ساتھ ساتھ تھیں۔
صحافی اور اینکر حامد میر اور عامر لیاقت حسین طویل عرصہ جیو چینل سے منسلک رہے۔ بعدازاں عامر لیاقت نے چینل چھوڑنے کے بعد حامد میر کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
عامر لیاقت کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حامد میر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ جب کوئی دنیا سے چلا جائے تو اس کی اچھی باتوں کو یاد رکھنا چاہیے اللّٰہ پاک عامر لیاقت صاحب کی مغفرت فرمائے۔
’ڈپریشن ایک حقیقت ہے‘
عامر لیاقت حسین کی اچانک موت کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی موت کو ان کی زندگی کے آخری دنوں میں پیدا ہونے والے حالات سے جوڑا جارہا ہے۔ ان کی موت کے خبر کے بعد پاکستان میں ٹوئٹر پر ’ڈپریشن‘ ٹرینڈ کررہا ہے۔
ایک صارف ڈاکٹر ثقلین شاہ نے لکھا ہے کہ ڈپریشن نے عامر لیاقت حسین کی جان لی ہے۔ آپ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی شخص زندگی سے کتنا بیزار ہوچکا ہے جب تک یہ آپ پر خود نہ بیتے۔
انہوں نے لکھا کہ آپ اگر لوگوں کو خوش نہیں رکھ سکتے تو کم از کم ان کے ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث نہ بنیں۔
قانون دان اور ڈیجیٹل رائٹس کی کارکن نگہت داد نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ انہوں نے عامر لیاقت کی موت پر سنگ دلانہ پوسٹس دیکھی ہیں۔
ان کے مطابق نظر انداز کیے گئے ڈپریشن، ذہنی تناؤ، نشے کی عادات یا سوشل میڈٰیا پر پھیلائے گیا مواد اور ٹرولنگ یا طبعی موت۔ موت کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں لیکن لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں چاہیں وہ زندہ ہوں یا دنیا سے جاچکے ہوں۔
ایک اور صارف ’مظہر ٹویٹس‘ نے عامر لیاقت کی تصویر اور ان کے پرانےٹویٹ کے اسکرین شاٹ کے ساتھ پوسٹ کیا ہے کہ ڈپریشن ایک حقیقت ہے۔ اپنے ارد گرد لوگوں کا خیال رکھیں اور جو تکلیف میں ہوں ان سے بات کریں اور ان کی مدد کریں۔