پاکستان کا اقتصادی سروے 22-2021 جاری کر دیا گیا ہے جس میں سامنے آنے والے نکات کے مطابق پاکستان میں فی کس آمدن ہدف کے مقابلے میں زیادہ رہی جب کہ اوسط مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔اقتصادی سروے کی دستاویز کے مطابق ملک میں معاشی شرح نمو کا ہدف 4.8 فی صد رکھا گیا تھا جس کے مقابلے میں یہ چھ فی صد رہی۔
جمعرات کو دیگر وفاقی وزرا کےہمراہ اقتصادی سروے 22-2021 پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت نے چار برس میں 20 ہزار ارب روپے کے قرض لیے تھے۔ پاکستان نے سات دہائیوں میں جتنے قرضے لیے تھے، پی ٹی آئی کی حکومت نے اس کے 80 فی صد قرضے پونے چار سال میں لیے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت میں کیے گئے اقدامات سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ ایندھن کے حوالے سے معاہدے نہ ہونے سے اس وقت لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تمام اعداد و شمار میں پاکستان پیچھے گیا ہے۔
تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت 123 سے 126 ڈالر فی بیرل ہے۔ کرونا وائرس میں پاکستان کو مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔ دنیا بھر سے ملک کو مراعات ملی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت گندم درآمد کرنے پڑے گی۔ روس سے مذاکرات کریں گے۔ چینی بھی درآمد کرنی پڑے گی۔ کپاس کی پیداوار بھی کئی دہائیوں میں کم ترین ہوئی ہے۔
پریس کانفرنس میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اقتصادی سروے کے حوالے سے جو نمبر سامنے آ رہے ہیں، اس میں بعد میں تبدیلی کی گئی۔ اس لیے جب حقیقی نمبر دیکھے جائیں گے تو اندازہ ہوگا کہ اصل ہدف تو حاصل نہیں ہوا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اقتصادی سروے 10 ماہ تحریکِ انصاف جب کہ دو ماہ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی پر مبنی ہے۔
'ہر برس دو ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں لانا ضروری ہے'
پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان میں ہر برس توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے لگ بھگ دو ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونی چاہیے۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار برس میں آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونی چاہیے تھے جو نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں چھ ہزار میگا واٹ کے بجلی کے پیداواری پلانٹ بند کیے گئے۔ آج پاور سیکٹر میں 2470 ارب گردشی قرضے ہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اورمستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب درآمدی فیول کے بجلی کے منصوبے نہیں لگائے جائیں گے۔ پاور سیکٹر کی بہتری کے لیے اس کی ری اسٹرکچرنگ شروع کر دی ہے۔ گزشتہ حکومت میں بجلی کے پیداواری پلانٹس چلانے کے لیے ایندھن کی خریداری نہیں کی گئی۔
’عوام کو اب معلوم ہوگا کہ مہنگائی ہوتی کیا ہے‘
پاکستان کے سابق وزیرِ ِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے جو مہنگائی کی ہے اتنے کم وقت میں کسی حکومت نے مہنگائی نہیں کی۔
معاشی سروے کے اجرا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان گزشتہ دو برس میں ترقی کر رہا تھا اور مزید ترقی کی طرف جا رہا تھا جب کہ ملک کی دولت بھی بڑھ رہی تھی۔
ملک مین لوڈ شیڈنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سستی بجلی ڈیم بننے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کے آنے سے ایسا ہونا ممکن نہیں رہا۔
گزشتہ حکومت کی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں برآمدات 32 ارب ڈالر تک گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں نچلے طبقے کو اٹھانے کے لیے اقدامات کیے گئےلیکن اس کا ذکر اقتصادی سروے میں موجود نہیں ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے دوران اس وقت کی اپوزیشن نے کہا تھا کہ ملک میں لاک ڈاؤن لگایا جائے لیکن تحریکِ انصاف کی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ بعد میں دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے اقدامات درست تھے۔
عمران خان نے ان صحافیوں پر بھی تنقید کی جنہوں نے گزشتہ حکومت میں پی ٹی آئی کے اقدامات پر تنقید کی تھی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اب وہ صحافی کہاں ہیں جو کہتے تھے مہنگائی ہو گئی۔
موجود حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو اب معلوم ہوگا کہ مہنگائی ہوتی کیا ہے۔ تحریکِ انصاف نے آئی ایم ایف کا دباؤ برداشت کیا اور پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائیں۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ حماد اظہر نے اقتصادی سروے پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ اقتصادی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے تمام اہداف حاصل کیے۔ لیکن اب ایسی حکومت آ گئی ہے جو سب کچھ تباہ کر رہی ہے۔
اقتصادی سروے کے اہم نکات
اقتصادی سروے میں ملک میں فی کس آمدن کو ہدف سے زیادہ اضافہ ظاہر کیا گیا ہے۔ دستاویز کے اہم نکات کے مطابق حکومت نے فی کس سالانہ آمدن کا ہدف دو لاکھ 46 ہزار روپے رکھا تھا جب کہ فی کس سالانہ آمدن ہدف سے 68 ہزار روپے زائد یعنی تین لاکھ 14 ہزار روپے رہی۔
دوسری جانب اقتصادی سروے میں یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح بھی ہدف سے زیادہ رہی ہے۔ حکومت نے اوسط مہنگائی کی شرح کا ہدف آٹھ فی صد مقرر کیا تھا جب کہ مہنگائی میں ہدف سے پانچ فی صد زائد 13.3 فی صد اضافہ ہوا۔
جی ڈی پی کی شرح ہدف سے زیادہ
قومی اقتصادی سروے کے مطابق معاشی شرح نمو، زراعت، صنعتوں، سروسز سیکٹر، برآمدات، اہم فصلوں، لارج مینوفیکچرنگ اور چھوٹی صنعتوں کا ہدف پورا ہوا، تاہم کپاس، لائیو اسٹاک، تعمیرات، جنگلات اور بجلی کی پیداوار کے اہداف میں ناکامی کا سامنا رہا ہے۔
سرکاری دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ مالی سال 22-2021 میں جی ڈی پی چھ فی صد رہی جب کہ جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فی صد مقرر کیا گیا تھا۔اسی طرح ملکی معیشت کا حجم 383 ارب ڈالرز رہا۔ صنعتی شعبے کی پیداوار میں اضافہ نظر آیا۔ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال میں صنعتی شعبے کی پیداوار 7.2 فی صد رہی جب کہ اس کے لیے ہدف 6.6 فی صد مقرر کیا گیا تھا۔ رواں مالی سال خدمات (سروسز) کے شعبے کی پیداوار 6.2 فی صد رہی۔ حکومت نے گزشتہ برس خدمات کے شعبے کے لیے پیداواری ہدف 4.7 فی صد مقرر کیا تھا۔
ملک میں سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے اس حوالے سے دستاویز سے واضح ہو رہا ہے کہ مجموعی سرمایہ کاری 16.1 فی صد ہدف کے مقابلے15.1 فی صد رہی۔
زرعی پیداوار
زرعی پیداوار کے حوالے سے سروے میں سامنے آیا ہے کہ رواں مالی سال میں زرعی شعبے کی پیداوار بھی ہدف سے زیادہ رہی ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس زرعی پیداوار کے لیے ہدف 3.5 فی صد مقرر کیا تھا جب کہ یہ ہدف سے 0.9 فی صد زیادہ رہی جو کہ رواں مالی سال میں زرعی پیداوار 4.4 فی صد پر پہنچ چکی ہیں۔
سرکاری دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کپاس کی پیداوار 83 لاکھ بیلز، چاول کی پیداوار 93 لاکھ میٹرک ٹن، گنے کی پیداوار آٹھ کروڑ 87 لاکھ میٹرک ٹن اور گندم کی پیداوار دو کروڑ 64 لاکھ میٹرک ٹن ہوئی۔
سرکاری دستاویز کے مطابق رواں مالی سال میں کپاس کی ایک کروڑ پانچ لاکھ بیلز کی پیداوار کا ہدف رکھا گیا تھا تاہم اس کی پیداوار کم ہوئی اور مالی سال کے دوران 83 لاکھ بیلز کی پیداوار ہو سکی۔
دوسری جانب ملک میں چاول کی پیداوار ہدف سے زیادہ ہوئی۔ حکومت نے چاول کی پیداوار کے لیے 82 لاکھ میٹرک ٹن کا ہدف مقرر کیا تھا تاہم رواں مالی سال میں 93 لاکھ میٹرک ٹن چاول حاصل ہوا۔
ملک میں گنے کی پیداوار میں بھی بہت زیادہ اضافہ ظاہر کیا گیا ہے۔ حکومت نے مالی سال 22-2021 کے لیے گنے کی پیداوار کا ہدف سات کروڑ 45 لاکھ میٹرک ٹن مقرر کیا تھا تاہم اس کی پیداوار ہدف سے 19 فی صد زیادہ ہوئی۔ رواں مالی سال میں ملک بھر میں آٹھ کروڑ 87 لاکھ میٹرک ٹن گنے کی پیداوار ریکارڈ کی گئی ہے۔
اقتصادی سروے سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان میں گندم کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ حکومت نے مالی سال 22-2021 کے لیے گندم کی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 75 لاکھ میٹرک ٹن رکھا گیا تھا جب کہ اس کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے۔ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال میں دو کروڑ 64 لاکھ میٹرک ٹن کی پیداوار ہوئی۔ یہ مقرر کیے گئے ہدف سے پانچ فی صد کم ہے۔
درآمدات، برآمدات اور تجارت
اقتصادی سروے کی دستاویز میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بہت زیادہ اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔ حکومت نے مالی سال 22-2021 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف دو ارب 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مقرر تھا جب کہ مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ جولائی تا اپریل کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب 80 کروڑ ڈالرز پر پہنچ چکا تھا۔
مالی سال کے لیے تجارتی خسارے کا ہدف 28 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز مقرر گیا تھا۔ تاہم جولائی تا مئی کے 11 ماہ میں تجارتی خسارہ ریکارڈ 43ارب 33 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز رہا۔
حکومت نے گزشتہ برس مالی سال 22-2021 کے لیے درآمدات کاہدف 55 ارب 26 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم مالی سال کے گزشتہ 11 ماہ جولائی تا مئی کے دوران درآمدات 72 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز پر پہنچ چکی تھیں۔
اسی طرح حکومت نے مالی سال 22-2021 کے لیے برآمدات کا ہدف 26 ارب 83 کروڑ ڈالرز مقرر کیا تھا۔ تاہم اس میں بھی اضافہ نظر آیا اور مالی سال کے 11 ماہ جولائی سے مئی میں برآمدات 28 ارب 84 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز رہیں۔