ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں طلبہ کی گرفتاری پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا گیا کہ طلبہ آن لائن امتحانات کے اپنے حق کے لیے پُر امن مظاہرہ کر رہے تھے۔
گرفتار ہونے والے طلبہ کے حوالے سے بیان میں کہا گیا کہ انہیں فوری طور پر غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
پنجاب پولیس نے لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے 'یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب' کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ کو بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مبینہ طور پر حراست میں لے لیا تھا۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ احتجاج کے معاملے پر لاہور پولیس نے علامہ اقبال ٹاؤن میں واقع ایک فلیٹ پر رات گئے چھاپہ مارا تھا۔ جہاں سے طلبہ یونین میں سرگرم اور طلبہ ایکشن کمیٹی کے رکن زبیر صدیقی سمیت چار طلبہ کو حراست میں لے لیا ہے۔
پولیس افسر کے مطابق حراست میں لیے جانے والوں میں زبیر صدیقی، ثناء اللہ، سلمان اور حارث شامل ہیں۔
حراست میں لیے گئے تمام طلبہ نجی یونیورسٹی کے خلاف احتجاج میں شامل تھے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ اس سے قبل 35 طلبہ کو گرفتار کیا گیا تھا جن کا ریمانڈ عدالت سے لیا جا چکا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' (ایچ آر سی پی) کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ دیگر معاملات میں بھی قانون کی عمل داری کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں اِس وقت قیادت کا بحران ہے۔ کوئی اچھا رہنما ہو تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
اُن کے خیال میں طلبہ کے ساتھ جو زیادتی کی گئی ہے۔ اُس میں طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے تھی تاکہ اُن کے مسائل منظم طریقے سے سامنے آ سکیں۔ طلبہ کی تربیت ہو سکے۔ مدت سے طلبہ یونین پر پابندی ہے اور بہت سے مطالبات کے باوجود حکومت چاہتی بھی ہے طلبہ یونین بحال ہو لیکن کر نہیں سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اُس کو بھی مدِ نظر رکھیں اور جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ سب بھی دیکھیں۔ تو ہمارے حالات تشویش ناک دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اوپر اوپر سے بات کرتی ہیں۔ حکومت پر تنقید کرتی ہیں۔ لیکن عوام کی بھلائی کے لیے اُن کا اپنا ایجنڈا سامنے نہیں آیا۔ اِن تمام چیزوں میں سیاسی منصبوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کی ہماری سیاسی جماعتوں میں اہلیت نظر نہیں آتی۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ماضی میں اُن کے ایک شاگرد پاکستان کے وزیرِ اعظم بن گئے تھے۔ جنہیں اُنہوں نے نصیحت کی تھی کہ اپنی پہلی تقریر میں یونین بحال کر دینا۔ اُنہوں نے اعلان بھی کر دیا تھا۔ لیکن اِس بات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
مہدی حسن کے بقول بعد میں معلوم ہوا کہ طلبہ یونین کو بحال کرنا یا یہ پالیسی اختیار کرنا سیاسی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سماجی کارکن اور لیکچرار ڈاکٹر عمار علی جان کہتے ہیں کہ لاہور سے طلبہ کی گرفتاری سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس کسی با اثر شخص کی ذاتی ملازم بنی ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار علی جان نے کہا کہ جن طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے پہلے اُن کے خلاف کوئی مقدمہ بھی درج نہیں تھا۔
واضح رہے پنجاب کے مختلف شہروں میں نجی جامعات کے طلبہ آن لائن امتحانات نہ لیے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
طلبہ کا مؤقف ہے کہ کرونا وائرس کے باعث تعلیمی ادارے بند رہے اور اِنہیں اِس دوران آن لائن پڑھایا گیا ہے۔ جس کے بعد امتحانات بھی آن لائن ہونے چاہئیں۔
منگل کو لاہور کی یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے سامنے مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ جنہیں بعد ازاں چھوڑ دیا گیا تھا۔ بعد ازاں پولیس نے 500 سے زائد طلبہ کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔
آن لائن امتحانات کے حق میں لاہور کی نجی تعلیمی درس گاہ 'یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب' کے باہر ہنگامہ آرائی کرنے والے طلبہ میں سے پانچ کو پولیس نے لاہور کی ماڈل ٹاؤن کچہری پیش کیا ہے۔
مقدمے کے تفتیشی افسر نے ملزمان کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ مانگا تھا جس پر عدالت نے پانچوں طلبہ کا تین دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب 'یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب' کے باہر احتجاج کے بعد گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سی سی پی او لاہور اور آئی جی پنجاب سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔