انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ انصاف کے متلاشی 'لاپتا افراد' کے لواحقین کے خلاف کریک ڈاؤن کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
جمعے کو ایک بریفنگ میں ایمنسٹی نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کے لواحقین کی شکایات اور اُن کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاپتا افراد کے اہلِ خانہ پرامن احتجاج کرتے ہیں، لیکن ریاستی اداروں کی طرف سے اُنہیں دھمکیاں دینے، ہراساں کرنے اور یہاں تک کے تشدد کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
یہ رپورٹ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب بلوچستان اور دیگر علاقوں سے لاپتا ہونے والے افراد کے اہلِ خانہ کی جانب سے احتجاج میں شدت آئی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جبری گمشدگیوں کے واقعات تواتر سے رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ کئی برسوں سے لاپتا ہیں۔ ان لاپتا افراد کے اہلِ خانہ ان کی گمشدگی کا الزام بعض ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہیں،مگر ریاستی اداروں کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بظاہر نظامِ انصاف سے مایوس ہونے کے بعد بہت سے خاندان عوامی مظاہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ حکام پر اپنے پیاروں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال سکیں یا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں جنوبی ایشیا کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر دنوشکا ڈسانائیکے کا کہنا ہے کہ یہ ناانصافی ان خاندانوں کے ساتھ بڑھ جاتی ہے جب وہ احتجاج کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج کے حق پر کریک ڈاؤن فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سنگین خلاف ورزی اور ایک جرم ہے۔ تنظیم نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی انٹیلی جنس سروسز نے انسانی حقوق کے محافظوں، سیاسی کارکنوں، طلبہ اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے معمول کے مطابق جبری گمشدگی کا استعمال کیا ہے، جس میں سینکڑوں متاثرین کی قسمت ابھی تک معلوم نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ایسے بہت سے افراد کو لاپتا افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی چند روز قبل ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی فوجی قیادت کو لاپتا افراد کے معاملے پر گہری تشویش ہے ۔
'ریاستی اداروں کو قانون کے تابع ہونا چاہیے'
سول سوسائٹی کے رہنما اور لاپتا افراد کے حوالے سے کام کرنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بیان پہلی مرتبہ نہیں آیا ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ بات کرچکی ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کردیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا پارلیمان اور سپریم کورٹ میں متعدد بار بات ہوئی لیکن اس معاملے پر قانون سازی نہیں ہوسکی کیونکہ ریاست کےجن اداروں پر الزام ہے وہ کسی قانون کے تحت آنا پسند نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ بیان بہت مناسب اور صحیح وقت پر دیا گیا ہے کیونکہ حالیہ عرصے میں لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کئی دنوں سے مسلسل احتجاج کررہے ہیں اور ان کی شنوائی کے بجائے ان پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔
لاپتا افراد کے حوالے سے وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ حکومت میں بظاہر اس معاملے میں حساسیت پائی جاتی ہے اور اسی لیے کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ حکومتی کمیٹی کس قدر عزم اور طاقت سے لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاہم ذاتی مشاہدے کو دیکھتے ہوئے وہ اس مسئلے کو مکمل حل کی طرف جاتا ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ سال اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے مسودہ قانون کی منظور ی دے اور جبری گمشدگیوں سے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کرے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں لاپتا افراد کے حوالے سے پیش کیا گیا قانونی بل تاحال منظور نہیں کیا جاسکا اور سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ لاپتا افراد کے حوالے سے بل لاپتا ہوگیا ہے۔
'ریاست جواب نہیں دینا چاہتی تو تشدد کا راستہ اپناتی ہے'
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کی سوچی سمجھی حکمت عملی بن چکی ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دینا چاہتے تو احتجاج کرنے والے اہل خانہ کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیےتحقیقاتی اور عدالتی نظام ڈیڈ لاک کا شکار ہے تو اہلِ خانہ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ احتجاج کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک وہ اس مسئلے کو حل نہیں کرے گی لاپتا افراد کے حوالے سے احتجاج ختم نہیں ہوگا۔
'لاپتا افراد کا معاملہ حکومت کی اولین ترجیح ہے'
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے جمعہ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے کو حل کرنا ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
یورپی یونین کی سفیر رینا کیونکا سے ملاقات میں انہوں نے جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کے بارے میں آگاہ کیا۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وفاقی کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جس کے سربراہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ہیں۔ اس کمیٹی کے اب تک دو اجلاس ہوچکے ہیں اورآئندہ اجلاسوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔