روہنگیا مسلمانوں کو شکوہ ہے کہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں پر برما میں ہونے والے ظلم و ستم کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔
واشنگٹن —
برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کا تاریخی دورہ امریکہ اب اپنے آخری مراحل میں ہے اور بہت جلد وہ وطن واپس لوٹ جائیں گی۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ اس خاتون رہنما نے جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں اپنے ملک میں 15 برس سے زائد عرصہ نظر بندی میں کاٹا۔
لیکن 2010ء میں اپنی رہائی کے بعد وہ بالآخر ایک بار پھر ملک کی پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اپنی بین الاقوامی شہرت اور عزت کے باعث سوچی بیرونی دنیا کےلیے برما کا ایک مثبت تعارف ہیں۔ ایک ایسا تعارف جس سے لوگ امید اور جدوجہد کا درس کشید کرتے ہیں۔
اپنے دورہ امریکہ کے دوران میں سوچی نے بیشتر خطابات اپنی مادری زبان برمی میں کیے جنہیں سننے کے لیے امریکہ میں آباد برمی باشندے ہزاروں کی تعداد میں ان کے اعزاز میں ہونے والی تقاریب میں شریک ہوتے رہے۔
انہی تارکینِ وطن میں سے ایک کیو ڈویا ہیں جو آنگ سان سوچی کا برما کا اصل رہنما قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ سوچی کے ساتھ صرف اس لیے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
اپنے اس دورے کے دوران میں سوچی کیپٹل ہل گئیں جہاں انہیں اراکینِ کانگریس کی جانب سے 'کانگریشنل گولڈ میڈل' سے نوازا گیا جس کا اعلان 2008ء میں کیا گیا تھا۔ یہ اعزاز ان بین الاقوامی اعزازات کی طویل فہرست میں ایک اور اضافہ ہے جو انہیں طویل قید سے رہائی کے بعد اب تک دیے جاچکے ہیں۔
سوچی نے اس دورے میں صدرِ امریہ براک اوباما اور وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن سے بھی ملاقاتیں کیں اور امریکی ریاستوں کینٹکی اور انڈیانا میں مقیم برمی تارکینِ وطن کی تقاریب سے خطاب کیا۔
ایسی ہی ایک تقریب لاس اینجلس میں بھی ہوئی جس کے شرکا میں ایک نیپالی جوڑا بھی شامل تھا۔ پریم گوراگین اور ان کی اہلیہ برندا کا کہنا ہے کہ وہ سوچی کے اس لیے حمایت کرتے ہیں کیوں کہ وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر رہی ہیں۔
لیکن سوچی کے اس دورے سے سب ہی لوگ خوش نہیں۔ جہاں ان کے اعزاز میں امریکہ بھر میں تقاریب ہوئیں اور ان کی خوب آئو بھگت کی گئی وہیں برما کی روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے اقلیتی مسلمان تارکینِ وطن کے ایک گروپ نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
ان مظاہرین میں برما سے تعلق رکھنے والے روہنگیا مسلمان کوکو نینگ بھی شریک تھے جو اب امریکہ میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں پر برما میں ہونے والے ظلم و ستم کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔
کوکو نینگ کے بقول برمی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور یہ مظلوم لوگ چاہتے ہیں کہ سوچی جیسی عالمی شہرتِ یافتہ رہنما اپنے ہی ملک میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور برما کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا کوئی طویل المدت حل تجویز کرے۔
لیکن جب ایک تقریب میں سوچی سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر وہ برما کی صدر ہوتیں تو روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کیا کرتیں، تو انہوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ ایک سراسر فرضی سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔
امن کی نوبیل انعام یافتہ اس خاتون رہنما نے جمہوریت کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں اپنے ملک میں 15 برس سے زائد عرصہ نظر بندی میں کاٹا۔
لیکن 2010ء میں اپنی رہائی کے بعد وہ بالآخر ایک بار پھر ملک کی پارلیمنٹ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ اپنی بین الاقوامی شہرت اور عزت کے باعث سوچی بیرونی دنیا کےلیے برما کا ایک مثبت تعارف ہیں۔ ایک ایسا تعارف جس سے لوگ امید اور جدوجہد کا درس کشید کرتے ہیں۔
اپنے دورہ امریکہ کے دوران میں سوچی نے بیشتر خطابات اپنی مادری زبان برمی میں کیے جنہیں سننے کے لیے امریکہ میں آباد برمی باشندے ہزاروں کی تعداد میں ان کے اعزاز میں ہونے والی تقاریب میں شریک ہوتے رہے۔
انہی تارکینِ وطن میں سے ایک کیو ڈویا ہیں جو آنگ سان سوچی کا برما کا اصل رہنما قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ سوچی کے ساتھ صرف اس لیے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد کر رہی ہیں۔
اپنے اس دورے کے دوران میں سوچی کیپٹل ہل گئیں جہاں انہیں اراکینِ کانگریس کی جانب سے 'کانگریشنل گولڈ میڈل' سے نوازا گیا جس کا اعلان 2008ء میں کیا گیا تھا۔ یہ اعزاز ان بین الاقوامی اعزازات کی طویل فہرست میں ایک اور اضافہ ہے جو انہیں طویل قید سے رہائی کے بعد اب تک دیے جاچکے ہیں۔
سوچی نے اس دورے میں صدرِ امریہ براک اوباما اور وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن سے بھی ملاقاتیں کیں اور امریکی ریاستوں کینٹکی اور انڈیانا میں مقیم برمی تارکینِ وطن کی تقاریب سے خطاب کیا۔
ایسی ہی ایک تقریب لاس اینجلس میں بھی ہوئی جس کے شرکا میں ایک نیپالی جوڑا بھی شامل تھا۔ پریم گوراگین اور ان کی اہلیہ برندا کا کہنا ہے کہ وہ سوچی کے اس لیے حمایت کرتے ہیں کیوں کہ وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر رہی ہیں۔
لیکن سوچی کے اس دورے سے سب ہی لوگ خوش نہیں۔ جہاں ان کے اعزاز میں امریکہ بھر میں تقاریب ہوئیں اور ان کی خوب آئو بھگت کی گئی وہیں برما کی روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے اقلیتی مسلمان تارکینِ وطن کے ایک گروپ نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
ان مظاہرین میں برما سے تعلق رکھنے والے روہنگیا مسلمان کوکو نینگ بھی شریک تھے جو اب امریکہ میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں پر برما میں ہونے والے ظلم و ستم کو یکسر نظر انداز کیا ہے۔
کوکو نینگ کے بقول برمی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور یہ مظلوم لوگ چاہتے ہیں کہ سوچی جیسی عالمی شہرتِ یافتہ رہنما اپنے ہی ملک میں ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور برما کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا کوئی طویل المدت حل تجویز کرے۔
لیکن جب ایک تقریب میں سوچی سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر وہ برما کی صدر ہوتیں تو روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر کیا کرتیں، تو انہوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ وہ ایک سراسر فرضی سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔