واشنگٹن —
برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی نے امریکہ کی وسط مغربی ریاست انڈیانا کا دورہ کیا ہے جہاں برمی تارکینِ وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
سوچی ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں جو ان کا 40 سال سے زائد عرصے میں پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اپنے اس دورے کے دوران میں انہوں نے صدرِ امریکہ براک اوباما اور سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن سمیت کئی اعلیٰ امریکی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
انڈیانا ریاست امریکہ میں برمی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ انہی میں سے ایک سابق طالبِ علم رہنما نین چان ہیں جنہوں نے آخری بار اپنی قائد کو 1988ء میں برمی حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے دوران میں دیکھا تھا۔
نین بتاتے ہیں کہ ان کی سوچی سے 13 ستمبر 1988ء کو اس وقت آخری ملاقات ہوئی تھی جب وہ برما میں جمہوریت کی بحالی کے موضوع پر ایک گروپ ڈسکشن کے لیے جمع ہوئے تھے۔
اس ملاقات کے چند روز بعد 18 ستمبر 1988ء کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد برما کے جمہوریت پسند کارکنوں پہ ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتوں کی عشروں طویل رات کا آغاز ہوا۔
فوجی حکومت کی انتقامی کاروائیوں سے گھبرا کر نین چان ملک سے فرار ہوگئے تھے جب کہ ان کی رہنما سوچی برما ہی میں ٹہر گئی تھیں اور اس کے بعد سے 2011ء تک کا بیشتر عرصہ انہیں اپنی رہائش گاہ پر نظر بندی میں گزارنا پڑا تھا۔
چوبیس سال کے طویل عرصے کے بعد ایک کارکن کی اپنی قائد سے انڈیانا کے شہر فورٹ وائن میں منعقدہ جلسے میں یوں دوبارہ ملاقات ہوئی کہ نین، سوچی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دے رہے تھے۔
کیٹ مینزن ان ایک ہزار طلبہ کا حصہ تھیں جنہوں نے پانچ ہزار دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس جلسے میں شرکت کی اور سوچی کا خطاب سنا۔
گوکہ انہیں سوچی کی بات سمجھنے کے لیے اسکرینوں پر چلنے والے انگریزی ترجمے کی مدد لینی پڑی لیکن وہ اسے اپنے لیے ایک تاریخ ساز لمحہ قرار دیتی ہیں جب انہوں نے ایک ایسی شخصیت کو اپنے سامنے کھڑا بولتا پایا جن کے بارے میں انہوں نے اب تک محض کتابوں ہی میں پڑھ رکھا تھا۔
سوچی ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں جو ان کا 40 سال سے زائد عرصے میں پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اپنے اس دورے کے دوران میں انہوں نے صدرِ امریکہ براک اوباما اور سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن سمیت کئی اعلیٰ امریکی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔
انڈیانا ریاست امریکہ میں برمی تارکینِ وطن کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ انہی میں سے ایک سابق طالبِ علم رہنما نین چان ہیں جنہوں نے آخری بار اپنی قائد کو 1988ء میں برمی حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے دوران میں دیکھا تھا۔
نین بتاتے ہیں کہ ان کی سوچی سے 13 ستمبر 1988ء کو اس وقت آخری ملاقات ہوئی تھی جب وہ برما میں جمہوریت کی بحالی کے موضوع پر ایک گروپ ڈسکشن کے لیے جمع ہوئے تھے۔
اس ملاقات کے چند روز بعد 18 ستمبر 1988ء کو فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد برما کے جمہوریت پسند کارکنوں پہ ظلم و ستم اور قید و بند کی صعوبتوں کی عشروں طویل رات کا آغاز ہوا۔
فوجی حکومت کی انتقامی کاروائیوں سے گھبرا کر نین چان ملک سے فرار ہوگئے تھے جب کہ ان کی رہنما سوچی برما ہی میں ٹہر گئی تھیں اور اس کے بعد سے 2011ء تک کا بیشتر عرصہ انہیں اپنی رہائش گاہ پر نظر بندی میں گزارنا پڑا تھا۔
چوبیس سال کے طویل عرصے کے بعد ایک کارکن کی اپنی قائد سے انڈیانا کے شہر فورٹ وائن میں منعقدہ جلسے میں یوں دوبارہ ملاقات ہوئی کہ نین، سوچی کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دے رہے تھے۔
کیٹ مینزن ان ایک ہزار طلبہ کا حصہ تھیں جنہوں نے پانچ ہزار دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس جلسے میں شرکت کی اور سوچی کا خطاب سنا۔
گوکہ انہیں سوچی کی بات سمجھنے کے لیے اسکرینوں پر چلنے والے انگریزی ترجمے کی مدد لینی پڑی لیکن وہ اسے اپنے لیے ایک تاریخ ساز لمحہ قرار دیتی ہیں جب انہوں نے ایک ایسی شخصیت کو اپنے سامنے کھڑا بولتا پایا جن کے بارے میں انہوں نے اب تک محض کتابوں ہی میں پڑھ رکھا تھا۔