پاکستان کیوں ٹوٹا: محرکات، سازشیں اور مضمرات

  • بہجت جیلانی
وائس آف امریکہ کی اِس خصوصی رپورٹ میں ممتاز تجزیہ کاروں نےپاکستان کے ٹوٹنے کے تاریخی و سیاسی پسِ منظر کا تفصیلی ذکر کیا۔ اُنھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اورایک آزاد ملک کے طور پر بنگلہ دیش نمودار ہونے سے متعلق رائے زنی کی
سولہ دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے، جب 42 برس قبل اِسی روز پاکستان دو لخت ہوا۔

اِس واقعے کے محرکات اور اسباب و عوامل پر مبنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں، جسے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس نے نشر کیا، نامور تجزیہ کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں ممتاز تجزیہ کاروں نےپاکستان کے ٹوٹنے کے تاریخی و سیاسی پسِ منظر کا تفصیلی ذکر کیا۔ اُنھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اورایک آزاد ملک کے طور پر بنگلہ دیش نمودار ہونے سے متعلق رائے زنی کی۔


ممتاز سیاسی تجزیہ کار، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے پاکستان کی تقسیم کو ’سیاسی نظام کی ناکامی اور احساسِ محرومی کا نتیجہ‘ قرار دیا۔

ڈاکٹر رضوی کے خیال میں، ’پاکستان نے اِس واقعے سے سبق سیکھا ہے، جِس کا نتیجہ، ملک کے جمہوری نظام کے تسلسل میں نظر آتا ہے‘۔

ڈاکٹر زبیر اقبال واشنگٹن کے ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ سے وابستہ ایک نامور محقق ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ، ’تاریخی تبدیلی کے تناظر میں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی تنازعات کو فوجی طاقت سے حل نہیں کیا جاسکتا‘۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کے الفاظ میں، ’پاکستان کو اِس تاریخی تبدیلی سے یہ سبق سیکھنا چاہیئے کہ معاشی سطح پر مساوات اور یکجہتی کے ماحول کو پروان چڑھایا جائے، تاکہ ایک مضبوط مملکت قائم ہو‘۔

ڈاکٹر طیب محمود، امریکی ریاستِ واشنگٹن کے شہر، سیئاٹل میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ آف گلوبل جسٹس‘ میں قانون کی تدریس سے وابستہ ہیں۔ اُنھوں نے 1971ء میں ہونے والی پاکستان کی تقسیم کو ’ایک المیہ‘ قرار دیا، جِس سے بقول اُن کے، سمجھوتا کرنا ضروری ہے۔

اُن کے خیال میں،’پاکستان کے دو لخت ہونے کے اسباب میں متناسب نمائندگی نہ ہونا اور علاقائی خودمختاری کا فقدان تھا‘۔

بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر طیب محمود نے کہا کہ بنگلہ دیش کی سیاست کو، بقول اُن کے، ’خاندانی سیاست سے الگ کرنا ضروری ہے‘۔

احتشام الدین نظامی شکاگو کے ایک معروف سیاسی کالم نگار ہیں۔ اُنھوں نے 1971ءسے قبل ڈھاکہ میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ 1971ء میں ہونے والی اِس تقسیم کا آغاز، بقول اُن کے،’ 1948ء میں ہی اُس وقت ہوگیا تھا جب متحدہ بنگال کی بات شروع ہوئی اور بہت سے سرکردہ راہنما مسلم لیگ سے الگ ہوئے‘۔

اِس سوال پر کہ اِس علیحدگی سے کیا سبق ملتا ہے، احتشام الدین نظامی نے کہا کہ، ’ نظام کی تبدیلی پر تجربے نہ کیے جائیں اور جمہوریت کو درست انداز میں چلانے کے اقدام پر عمل پیرا ہوا جائے۔

یاسمین علی ایک ممتاز کالم نویس اور تجزیہ کار ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس وقت بھی پاکستان کو دہشت گردی پر قابو پانے اور لوگوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، ’تاکہ بہتر انداز میں مستقبل کے پاکستان کا تحفظ ہوسکے‘۔

اُنھوں نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے پسِ منظر میں لکھی جانے والی مختلف کتابوں کے حوالے کے ساتھ تفصیلات بتاتے ہوئے، بیرونی سازشوں کا تفصیلی ذکر بھی کیا۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ہمیں اپنی کوتاہیوں کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے۔

تفصیل سننے کے لیے، آڈیو رپورٹ پر ’کلک‘ کیجئیے:

Your browser doesn’t support HTML5

16 دسمبر 1971ء: تجزیہ کاروں کے خیالات