امریکہ میں تین ہفتوں کے دوران ڈیڑھ کروڑ افراد بے روزگار

امریکہ میں گزشتہ ہفتے مزید 66 لاکھ افراد نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دی ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی محکمۂ محنت کو تقریباً اتنی ہی نئی درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جبکہ اس سے پچھلے ہفتے 33 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے تھے۔

اس کی وجہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کیا جانے والا لاک ڈاؤن ہے جس کے نتیجے میں کاروبار، صنعتیں اور دفاتر بند ہیں۔

بے روزگاری الاؤنس کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں ریاست کیلی فورنیا، نیویارک اور پنسلوانیا سے دی گئی ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بے روزگاروں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواست دینے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔

چند ہفتے پہلے تک امریکی معیشت میں بے روزگاروں کی تعداد کئی عشروں میں سب سے کم تھی لیکن اب ان کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 67 لاکھ 80 ہزار ہوچکی ہے۔ یہ خدشات برقرار ہیں کہ آنے والے ہفتوں میں مزید لاکھوں افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں جس سے بے روزگاری الاؤنس طلب کرنے والوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

آکسفرڈ اکنامکس کی امریکی مالیات سے متعلق ماہر کیتھی بوسٹیانسک کے مطابق حالات ایسے ہیں جیسے پوری معیشت اچانک بلیک ہول میں جا گری ہو۔ وال اسٹریٹ کے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ فی الحال مستقبل کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ معاشی سرگرمیوں میں اچانک اور ازخود جمود کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوئی نہیں جانتا کہ نقل و حرکت اور تجارت پر پابندیاں کب اٹھائی جائیں گی۔

فروری میں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح تین اعشاریہ پانچ فی صد تھی۔ اس سے پہلے مسلسل 113 مہینوں سے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوتا رہا تھا۔

اب ماہرین کا خیال ہے کہ ساڑھے 16 کروڑ کارکنوں پر مشتمل امریکی فورس میں سے دو کروڑ افراد اپریل کے آخر تک بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو امریکی معیشت اپریل تا جون کی سہ ماہی میں کساد بازاری میں چلی جائے گی۔

امریکی کانگریس حال میں کرونا وائرس کے بحران سے نمٹنے کے لیے دو ہزار ارب ڈالر کا پیکیج منظور کرچکی ہے، جس میں ڈھائی سو ارب ڈالر بے روزگار ہونے والوں کی مدد کے لیے رکھے گئے ہیں۔