فلسطینی باشندوں کی اکثریت صدر اوباما کے دورے کے متعلق زیادہ پرامید اور پرجوش نہیں ہے
واشنگٹن —
امریکہ کے صدر براک اوباما کے طے شدہ دورے کے خلاف فلسطین کے علاقے مغربی کنارے میں ہونے والے مظاہرے کے شرکا اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
مغربی کنارے کے شہر راملہ میں ہونے والے مظاہرے کے سیکڑوں شرکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر کی جانب جانے کی کوشش کی جسے پولیس اہلکاروں نے ناکام بنادیا۔
اس موقع پر مظاہرین اور پولیس کے مابین ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
فلسطینی باشندوں کی اکثریت صدر اوباما کے دورے کے متعلق زیادہ پرامید اور پرجوش نہیں ہے جنہوں نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لیے کشیدگی کا شکار اس خطے کا انتخاب کیا ہے۔
صدر اوباما اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں بدھ کو اسرائیل پہنچیں گے جب کہ جمعرات کو وہ راملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔
امریکی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ انہیں صدر اوباما کے حالیہ دورے کے نتیجے میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست امن مذاکرات کی فوری بحالی کی کوئی امید نہیں جن کا سلسلہ 2010ء سے تعطل کا شکار ہے۔
ا مریکی صدر کے دورے کے موقع پر یروشلم اور راملہ دونوں شہروں میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی دارالحکومت میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔ حکام کے مطابق مہمان صدر کی آمد کے بعد شہر کی مرکزی شاہراہیں عام ٹریفک کے لیے بند کردی جائیں گی جب کہ ان کے قافلے کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی نگرانی کی جائے گی۔
ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق امریکی صدر کے دورے کے موقع پر مغربی کنارے میں تین ہزار سے زائد فلسطینی پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
صدر اوباما اپنے دورے کے دوران میں جمعے کو بیت اللحم میں واقع 'چرچ آف نیٹیویٹی' بھی جائیں گے جو عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔
بعد ازاں وہ جمعے کو ہی دورے کے اگلے مرحلے میں اردن روانہ ہوجائیں گے۔
مغربی کنارے کے شہر راملہ میں ہونے والے مظاہرے کے سیکڑوں شرکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر کی جانب جانے کی کوشش کی جسے پولیس اہلکاروں نے ناکام بنادیا۔
اس موقع پر مظاہرین اور پولیس کے مابین ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
فلسطینی باشندوں کی اکثریت صدر اوباما کے دورے کے متعلق زیادہ پرامید اور پرجوش نہیں ہے جنہوں نے اپنی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لیے کشیدگی کا شکار اس خطے کا انتخاب کیا ہے۔
صدر اوباما اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں بدھ کو اسرائیل پہنچیں گے جب کہ جمعرات کو وہ راملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے۔
امریکی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ انہیں صدر اوباما کے حالیہ دورے کے نتیجے میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست امن مذاکرات کی فوری بحالی کی کوئی امید نہیں جن کا سلسلہ 2010ء سے تعطل کا شکار ہے۔
ا مریکی صدر کے دورے کے موقع پر یروشلم اور راملہ دونوں شہروں میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔
اسرائیلی دارالحکومت میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار تعینات ہیں۔ حکام کے مطابق مہمان صدر کی آمد کے بعد شہر کی مرکزی شاہراہیں عام ٹریفک کے لیے بند کردی جائیں گی جب کہ ان کے قافلے کی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھی نگرانی کی جائے گی۔
ایک فلسطینی عہدیدار کے مطابق امریکی صدر کے دورے کے موقع پر مغربی کنارے میں تین ہزار سے زائد فلسطینی پولیس اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
صدر اوباما اپنے دورے کے دوران میں جمعے کو بیت اللحم میں واقع 'چرچ آف نیٹیویٹی' بھی جائیں گے جو عیسائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش ہے۔
بعد ازاں وہ جمعے کو ہی دورے کے اگلے مرحلے میں اردن روانہ ہوجائیں گے۔