"وہ باپ بدقسمت ہوتے ہیں جو اپنے جوان بچوں کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔ مستقبل میں یہی چاہیں گے کہ جو بھی ہو اسے ہر طرح سے سیکیورٹی ملے۔ تاکہ پھر ایسا سانحہ نہ ہو۔ تاکہ پھر کوئی ایسا باپ نہ ہو جو اپنے بچے کو کندھا دے۔ اس کے جنازے کو کندھا دے۔"
یہ الفاظ ہیں اجون خان کے جنہوں نے چھ سال قبل آج ہی کے دن اپنے بیٹے اسفند خان کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر ہونے والے حملے میں کھو دیا تھا۔
جس وقت دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا تو ان کے بیٹے اسفند دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔
آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گروں کے ہلاکت خیز حملے کو آج چھ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ لیکن پشاور کی فضا میں آج بھی افسردگی نمایاں ہے۔
سانحۂ آرمی پبلک اسکول کی یاد میں تقاریب
سانحۂ اے پی ایس کی چھٹی برسی پر وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ردِ عمل دیا۔
اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ آج سے چھ برس قبل آرمی پبلک اسکول کے بچوں اور اساتذہ کے خلاف دہشت گردی کے بدترین حملے سے قوم شدید کرب اور صدمے سے دوچار ہوئی اور پوری قوم نے یکجا ہوکر ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی ٹھانی۔
انہوں نے کہا کہ ہم قوم سے کیے گئے اپنے وعدے کی تکمیل میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
بدھ کو آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں ہلاک ہونے والے جن بچوں اور دیگر افراد کا تعلق خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تھا، ان کے گھروں اور حجروں میں دعائیہ تقاریب منعقد کی گئیں۔
آرمی پبلک اسکول کے احاطے میں بھی ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اسکول انتظامیہ اور متاثرہ والدین کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں بھی قرآن خوانی کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور ان کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے شرکت کی۔ وزیرِ اعلیٰ نے واقعے میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اپنے بیان میں کہا کہ 16 دسمبر 2014 کو اسکول کے بچوں کی قربانی نے ایک نئی تاریخ رقم کی اور اس قربانی کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا۔
متاثرہ والدین کی تقریب منسوخ
سانحۂ 'اے اپی ایس' کی چھٹی برسی پر جہاں پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا، وہیں اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ انہیں حکام نے تقریب منعقد کرنے سے منع کر دیا ہے۔
والدین کی ایک تنظیم نے پشاور کے سرکاری ادارے 'آرکائیوز ہال' میں تقریب کے انعقاد کے لیے دعوت نامے جاری کیے تھے۔ لیکن 'آرکائیوز ہال' کی انتظامیہ نے 16 دسمبر کو چھٹی کا اعلان کر کے زیادہ تر ملازمین کو رخصت دے دی اور گھروں کو جانے کی ہدایت کی۔
'آرکائیوز ہال' کے مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے تالے لگا دیے گئے۔
والدین کی تنظیم میں شامل ڈاکٹر ظہور عالم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے تقریب کے لیے باقاعدہ درخواست دی تھی مگر انہیں عین وقت پر منع کر دیا گیا۔
حکومت کی جانب سے 'آرکائیوز ہال' کی بندش پر کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس حکام نے ہال بند کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
تاہم پشاور سے ہمارے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق سانحے کے متاثرین بدھ کی سہ پہر ہال زبردستی کھلوا کر اپنی تقریب منعقد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سانحۂ آرمی پبلک اسکول کی تاریخ
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 133 بچوں سمیت 150 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا گیا اور قانون میں ترمیم کے ذریعے ملک بھر میں فوجی عدالتوں کو فعال کر دیا گیا تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات جلد نمٹائے جا سکیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئیں۔ ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا۔
درجنوں دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے گئے اور سزائیں سنائی گئیں۔ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔
فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 200 ملزمان کی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا ہے۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود والدین نے حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ والدین کے اصرار پر سپریم کورٹ نے واقعے کی تحقیقات کے لیے اکتوبر 2018 میں ایک جوڈیشل کمیشن ترتیب دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر والدین کے تحفظات
جسٹس محمد ابراہیم خان نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ کو بھیجی جو ستمبر میں منظرِ عام پر لائی گئی۔ مگر بہت سے والدین کی طرح اجون خان کو بھی کچھ سوالوں کے جواب ابھی تک نہیں ملے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اجون خان نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں کہیں یہ تعین نہیں کیا گیا کہ کس کی وجہ سے سیکیورٹی لیپس ہوا؟ جس کی وجہ سے ہمارے بچے ہم سے جدا ہوئے اس کے بارے میں یا ان لوگوں کے بارے میں رپورٹ میں کوئی تجاویز نہیں دی گئیں۔
متاثرہ والدین میں ایک فضل خان ایڈووکیٹ بھی ہیں جو حکومت اور حکومتی اداروں کے اقدامات پر تنقید کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ وہ اس سانحے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں میں بھی شامل ہیں۔
فضل خان ایڈووکیٹ رواں سال نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے جان بچانے کی خاطر بیرونِ ملک عارضی رہائش اختیار کر رکھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فضل خان ایڈووکیٹ نے سانحۂ اے پی ایس کے بعد کیے گئے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس واقعے کی کسی کو سزا ملی ہے تو وہ صرف والدین ہیں جو انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جب کہ واقعے کے ذمہ دار شخص کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
فضل خان کا اشارہ قاری احسان اللہ احسان کی طرف تھا جنہوں نے 2017 میں ایک معاہدے کے تحت خود کو حکومت کے حوالے کیا تھا۔ مگر رواں سال جنوری میں وہ سیکیورٹی اداروں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
فضل خان ایڈووکیٹ نے الزام لگاتے ہیں کہ احسان اللہ احسان کو نہ صرف رہا کر دیا گیا بلکہ انہیں ملک سے فرار ہونے میں مدد بھی دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدالت کی طرف سے جو کمیشن بنایا گیا تھا، اس میں ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے تعریف کی گئی ہے۔
احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق حکومتِ پاکستان بھی کر چکی ہے۔ رواں سال فروری میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے متعلق ریاست باخبر ہے اور اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔
برگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر بہت جلد خوش خبری ملے گی۔
سانحۂ آرمی پبلک اسکول پر بننے والے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی ادارے پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مصروف تھے جب کہ 'نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی' (نیکٹا) کی جانب سے فوج کے زیرِ انتظام تعلیمی اداروں سے متعلق تھریٹ الرٹ کا دائرہ خاصا وسیع تھا جس سے سیکیورٹی اداروں پر بوجھ مزید بڑھ گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جائے وقوعہ پر گارڈز کی کم تعداد اور پوزیشن بھی اس روز ہونے والے بڑے نقصان کی وجوہات میں سے ایک ہیں۔
سید اختر علی شاہ حملے کے وقت خیبر پختونخوا کے سیکریٹری داخلہ تھے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا "میں یہ کہوں گا کہ اطلاع دی گئی تھی۔ پھر جو آپریشنل فیلڈ میں تھے ان کا کام تھا کہ اس کو مزید ڈویلپ کرتے اور ساتھ ساتھ جو سافٹ ٹارگٹ بتائے گئے تھے ان کی سیکیورٹی زیادہ بہتر بناتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔"
تاہم اختر علی شاہ کے مطابق حملے کے بعد سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی سے بہت سی جانیں بچ گئیں جو قابلِ ستائش ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر بعض والدین اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور حکومت و دیگر اداروں کے اقدامات سے بھی غیر مطمئن ہیں۔
اجون خان اور ان کی اہلیہ کا غم تو شاید کبھی کم نہ ہو۔ مگر انہیں امید ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کی بنیاد پر مستقبل میں دوسرے والدین کو اس کرب سے بچایا جا سکے گا جس سے ابھی وہ گزر رہے ہیں۔